ہوچکا تھا ، اور اس حلقے میں جماعت اسلامی پرپُرزے نکال رہی تھی۔ جامعۃ الفلاح کے اساتذہ آس پاس کے گاؤں میں دورہ کرتے رہتے تھے ، بلریاگنج کے حلقے کے تمام گاؤں ، جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور کے زیر اثر تھے ، چنانچہ اس اطراف کے گاؤں کے طلبہ بکثرت احیاء العلوم میں پڑھتے تھے ، اب آہستہ آہستہ جامعۃ الفلاح اسی میں سے اپنا حصہ نکال رہاتھا۔ چونکہ اس نواح کے طلبہ بکثرت میرے ساتھی تھے ، اور وہ بہت خلیق اور مہمان نواز تھے ، ان کی دعوت پر اکثر میرا جانا آنا رہتا تھا ، جمعرات کو جاتا ، جمعہ کے بعد یا پہلے کچھ تقریر کرتا ، شام کو مبارک پور لوٹ آتا۔ ان مہمانیوں میں کبھی کبھی جامعۃ الفلاح کے جماعت اسلامیوں سے سے مڈبھیڑ ہوجاتی ، ان کی تقریروں اور باتوں سے مجھے ان کی موافقت کا کوئی تاثر نہ ہوتا ، مودودی صاحب اور مولاناامین احسن اصلاحی کی اکثر کتابیں پڑھ چکا تھا ، مجھے ہمیشہ ایسا لگا کہ یہ الفاظ ہی الفاظ ہیں ، حقیقت اور معانی سے خالی! ڈھانچہ ہی ڈھانچہ ہے روح اور زندگی سے عاری!
ایک بار میں ا سی حلقے کے ایک گاؤں اشرف پور میں پہونچا، دیکھا کہ وہاں جماعت اسلامی کااجتماع ہورہا ہے ،مسجد میں بعد نماز مغرب اجتماع کی کارروائی شروع ہوئی ، میں بھی اس میں بیٹھ گیا ، دو ایک تقریروں کے بعد ایک صاحب نے مجھے بھی تقریر کی دعوت دی ، میں اس وقت غالباً عربی کی پانچویں جماعت ، جس میں ہدایہ اولین وغیرہ پڑھائی جاتی ہے،کا طالب علم تھا ، لیکن تقریر کا یک گونہ عادی تھا ، اور جماعت اسلامی کا اس وقت تک شائع شدہ لٹریچر زیادہ تر پڑھ چکا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے آخرت کے موضوع پر تقریر کی تھی ، اور اس میں میں نے اشارات میں کہا تھا کہ کچھ لوگ آخرت آخرت کا نام بہت دہراتے ہیں مگر ان کا لفظ لفظ بتاتا ہے کہ وہ فکر آخرت سے تہی مایہ ہیں ، میرا اشارہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی طرف تھا ، کیونکہ وہ اپنے اوپر ہونے والے اعتراضات کے متعلق جواب دیتے ہوئے آخرت کی دہائی بہت دیتے ہیں ، مگر انداز اتنا جارحانہ ہوتا ہے کہ فکر آخرت سے خود خالی معلوم ہوتے ہیں ۔