مجھے بہت پسند تھا ، وہ پڑھنے والے کو پوری طرح اپنی گرفت میں رکھتے ہیں ، وہ ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے ، پڑھنے والا ان کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے کھو سا جاتا ہے ۔ میں نے ان کی کتابیں بارہا ایک ہی نشست میں پڑھی ہیں ۔، حکیم صاحب کو میرے جنون مطالعہ کا علم ہوگیا تھا ، انھوں نے مودودی صاحب کی کتابیں اور مضامین مجھے دینے شروع کئے ، اور میں انھیں بڑے شوق سے پڑھتا رہا، اس وقت تک تفہیم القرآن کی جتنی جلدیں شائع ہوچکی تھیں ، انھوں نے سب مجھے دیں ، میں پڑھ کر واپس کرتا تو وہ مجھ سے تاثر پوچھتے ، میں صرف پڑھنے کے لئے پڑھتا تھا ، اس لئے ان کے جی کے موافق تاثر نہیں بتا پاتاتھا ۔ علاوہ اس کے مجھے نظریاتی اعتبار سے جماعت اسلامی اور مودودی صاحب سے کوئی مناسبت نہ تھی ۔ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہ کا بہت معتقد تھا ، ان کے متعلق مضامین بہت پڑھ چکا تھا ، نقش حیات خود حضرت مدنی کی کتاب میرے مطالعہ سے گذر چکی تھی ، ان کے بارے میں دیکھنے والوں سے اتنے واقعات وحالات سن چکا تھا کہ بزرگی وتقویٰ ، علم وفضل اور خلوص وللٰہیت کے وہ میرے لئے معیار بن چکے تھے ، ان کے علاوہ دوسرے اکابر دیوبند بالخصوص حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی قدس سرہ کی محبت وعقیدت میرے دل میں پیوست تھی ۔ میں نے جب فارسی شروع کی تھی اسی وقت سوانح قاسمی حصہ دوم کا مطالعہ اتنی مرتبہ کرچکا تھا کہ وہ مجھے ازبر ہوگئی تھی ، میرے دل ودماغ کے رگ وریشہ میں ان کی محبت جذب ہوگئی تھی ۔ اس کے برخلاف مودودی صاحب کا تعارف یاتو ان کی کتابوں سے ہوا تھا یا عامر عثمانی ایڈیٹر تجلی کے مضامین ومقالات سے ، اسلوب نگارش دونوں کا معیاری تھا ، مگر تعلّی اور ہمہ دانی اور دوسروں کی تحقیر وتحمیق کا جذبہ ان پر مسلط تھا ، ہر وہ شخص جو ان کے نظریات کے موافق نہ ہو ، ان کی تحریروں سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ عقل وخرد سے بالکل تہی دامن ہے ، اس چیز نے مجھے ان سے بجائے قریب ہونے کے دور کردیا۔ میں جماعت اسلامی کی موافقت کبھی اپنے دل میں نہ پاسکا۔
اس دور میں بلریا گنج میں جماعت اسلامی کا ادارہ جامعۃ الفلاح کے نام سے قائم