مختصر بہت مختصر مگر واضح ہوتی ، کتاب پوری طرح حل ہوجاتی، یہ شاید ان کی بزرگی اور تقویٰ کی برکت تھی ، ورنہ اتنی مختصر تقریرسے نہ عبارت حل ہوتی ، نہ طلبہ کو اطمینان ہوتا، ہماری جماعت جو ۸۰؍ سے اوپر طلبہ پر مشتمل تھی ، میں نے کسی کو شکایت کرتے نہیں سنا ، ہم طلبہ کا اس وقت بھی یہی خیال تھا ، کہ حضرت میاں صاحب کی یہ برکت ہے ، ان کی بزرگی مسلّم تھی ،اور ان کے ورع وتقویٰ میں کوئی دورائے نہ تھی ۔
یہ اسباق تو مدرسے کی طرف سے متعین کئے گئے تھے ، اس وقت دار العلوم میں درجہ بندی نہ تھی ، کتابوں کے لحاظ سے درجات متعین ہوتے تھے ، بعض کتابیں بعض کتابوں کے ساتھ لازم تھیں ، اور بعض کے ساتھ بعض کتابیں نہیں دی جاتی تھیں ، مثلاً جلالین شریفین کے ساتھ ہدایہ اخیرین کا سبق ہوتا تھا ،لیکن مشکوٰۃ شریف کا نہیں ، ہدایہ اخیرین اور میبذی کے اسباق جلالین کے ساتھ بھی اور مشکوٰۃ کے ساتھ بھی ہوسکتے تھے ، چنانچہ مشکوٰۃ شریف پڑھنے والے بہت سے طلبہ ہدایہ اخیرین اور میبذی میں میرے ساتھی تھے۔
عربی تکلم وانشاء کے استاذ حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی علیہ الرحمہ تھے ، ان سے دورِ احیاء العلوم ہی سے بہت عقیدت تھی ، میں ان کے درس میں خصوصیت سے شرکت کرنا چاہتا تھا۔مولانا نے عربی تکلم وانشاء کے لئے تین درجے قائم کررکھے تھے ، پہلے درجے کو ’’صف اول‘‘ دوسرے کو ’’ صف ثانوی ‘‘ اور تیسرے کو ’’ صف نہائی ‘‘ کے نام سے موسوم کررکھاتھا، جدید طلبہ کا داخلہ ’’ صف اول ‘‘ میں ہوتا تھا ۔ یہ جماعت دو حصوں میں منقسم تھی ، اور دونوں کو صف نہائی کے ممتاز طلبہ جن کو مولانا متعین فرماتے تھے ، انھیں پڑھایا کرتے تھے ، اور مولاناخود صف ثانوی اور صف نہائی کو پڑھاتے تھے ، ان تینوں جماعتوں میں شامل ہونے کے لئے تعلیمات میں درخواست دینی ہوتی تھی ، میں نے صف ثانوی میں شامل ہونے کی درخواست دی ، دفتر تعلیمات سے مجھے ہدایت ملی کہ آپ جدید طالب ہیں مولانا وحید الزماں صاحب کی منظوری کے بعد آپ کو اس میں شامل کیا جائے گا ، میں مولانا کی خدمت میں گیا ، مولانا سے گزارش کی ،مولانا نے مجھے پہچان لیا ، اور فرمایا اچھی بات ہے ،