، جمعہ کی نماز جامع مسجد میں پڑھی ، وہاں ایک عجیب قصہ دیکھا ، دیکھا کہ ایک نہایت نحیف ولاغر بزرگ کو چند لوگ مل کر تقریباً اٹھاکر یا شاید گھسیٹ کر مگر ادب کے ساتھ لارہے ہیں ، چہرہ نہایت روشن ، سارا جسم جیسے سفید کاغذ کا ہو، میں نے دیکھا ، مجھے بہت ترس آیا کہ اتنے زار ونزار بوڑھے کو لوگ کیوں لارہے ہیں ، ان پر جمعہ کی نماز فرض ہی کہاں ہے ؟ لیکن میں حیرت میں ڈوب گیا ، جب دیکھا کہ انھیں لوگوں نے منبر کے دائیں جانب کھڑا کردیا ، اور وہ ہاتھ باندھ کر نماز میں مشغول ہوگئے ، بہت طویل قیام اور رکوع وسجود کے ساتھ انھوں نے چار رکعتیں تقریباً آدھ گھنٹے میں ادا کیں ، وہ آرام سے نماز پڑھ رہے تھے ، نہ کسی سہارے کی ضرورت ، نہ کسی مددگار کی حاجت! میں سوچ رہاتھا کہ صلوٰۃ التسبیح پڑھ رہے ہیں ، جب اس سے فارغ ہوئے ، تودیکھا کہ دو آدمی انھیں سہارا دے کر کھڑا کررہے ہیں ، پھر انھوں نے پورے اطمینان سے چار رکعتیں پڑھیں ، پھر خطبہ کی اذان ہوئی ، نماز کے لئے پھر انھیں کھڑا کرنا پڑا ، نماز جمعہ سے فراغت کے بعد پھر اسی شان سے بعد کی سنتیں پڑھیں ، نماز سے فراغت کے بعد لوگ انھیں اٹھا پٹھا کر لے گئے ، میں حیرت میں رہا ۔ حضرت مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ نے مولانا محمد الیاس صاحب نور اﷲ مرقدہٗ کی سوانح عمری میں ، اسی طرح کا ان کا حال لکھا ہے ،جس کو میں نے پڑھا تھا ، کہ بیماری اور ضعف کی وجہ سے وہ از خود کھڑے نہ ہوسکتے تھے ، لیکن جب لوگ انھیں کھڑا کردیتے ، تو وہ پورے اطمینان سے بغیر کسی سہارے کے نماز ادا کرتے ، وہی منظر میں یہاں دیکھ رہاتھا ، اور مولانا محمد الیاس صاحب کو یاد کررہاتھا ، بعد میں کسی سے پوچھا کہ یہ کون صاحب تھے ؟ بتانے والے بتایا کہ یہ مدرسہ مظاہر علوم کے ناظم حضرت مولانا اسعد اﷲ صاحب ہیں ، میرے دل کی پیشانی عقیدت سے جھک گئی ، حضرت حکیم الامت کے خلیفہ! مشہور عالم اور زبردست ترجمان حق وصداقت!
شام کو دیوبند واپسی ہوئی ، دوسرے روز بعد نماز مغرب مولانا وحید الزماں صاحب کی درس گاہ میں حاضری ہوئی ۔ مولانا جونہی مسند درس پر جلوہ فگن ہوئے ، زیر لب مسکراتے ہوئے انھوں نے فرمان صادر کیا کہ آج کل میں آپ لوگوں میں ، جن صاحب کاکوئی سفر ہوا