حضرت مولانا بڑہل گنج ضلع گورکھپور کے رہنے والے ہیں ، حضرت علامہ مولانا محمد ابراہیم صاحب بلیاوی علیہ الرحمہ سے خصوصی مناسبت تھی ،اور ان کے خاص شاگرد ہیں ۔
چوتھے گھنٹے میں حضرت منشی امتیاز احمد صاحب کی خدمت میں خطاطی سیکھنے کیلئے حاضر ہوتا تھا، مگر مجھے اس فن سے مناسبت نہ ہوسکی ، چند دن ان کی خدمت میں حاضر ہوا ، پھر میں نے ان کی خدمت میں عرض کی ، اگر اجازت ہو، تو مجھے مطالعہ کا بہت شوق ہے ، میں اس گھنٹے میں کتب خانہ چلاجایا کروں ، انھوں نے بخوشی اجازت دے دی ، اور میں اس گھنٹے میں پابندی سے کتب خانے جانے لگا، کتب خانہ اس وقت بارہ بجے دن تک کھلا رہتا ، میں بارہ بجے تک کتابوں میں لپٹا رہتا ، جب کتب خانہ بند ہونے لگتا ، تو وہاں سے نکلتا ، اس موضوع کو بعد میں قدرے تفصیل سے لکھوں گا ۔ ان شاء اﷲ
ظہر کی نماز کے بعد پانچواں اور چھٹا گھنٹہ ہدایہ اخیرین کے لئے تھا ، میاں صاحب حضرت مولانا اختر حسین صاحب نور اﷲ مرقدہٗ بہت عرصہ سے یہ کتاب پڑھاتے تھے ، دارالعلوم میں ہماری جماعت کی ہر کتاب دودو اساتذہ کے پاس تھی ، سوائے میبذی کے کہ وہ صرف حضرت مولانا قمر الدین صاحب ہی اس سال پڑھارہے تھے ، ہدایہ اخیرین کچھ طلبہ حضرت مولانا معراج الحق صاحب علیہ الرحمہ نائب مہتمم کی خدمت میں پڑھتے تھے ، مولانا موصوف یہ کتاب صبح کے وقت پہلے اور دوسرے گھنٹہ میں پڑھاتے، ان کے یہاں وقت کی پابندی کا بڑا اہتمام تھا ۔ مشہور تھا کہ گھنٹے کی ٹن سے گھنٹے کی ٹن تک ان کا سبق ہوتا ہے ، وقت سے پہلے ہی وہ درسگاہ میں تشریف لے آتے ، طلبہ بھی اس کا اہتمام کرتے ، اور جونہی تعلیم کا گھنٹہ بجتا ، عبارت خوانی شروع ہوجاتی، مولانا بہت مفصل اور لمبی تقریر کرتے ، جب تیسرا گھنٹہ بجتا، تب ان کاسلسلۂ تقریر موقوف ہوتا ، مگر سبق کم ہوتا۔
حضرت میاں صاحب کے یہاں بھی یہ سبق ہوتا، میاں صاحب کا انداز یہ تھا ، کہ گھنٹہ ہونے کے آدھ گھنٹے کے بعد تشریف لاتے ، تھوڑی دیر میں حاضری ہوتی ، پھر سبق شروع ہوتا، جو مکمل ایک گھنٹہ ہوتاتھا ، اس ایک گھنٹہ میں وہ چار صفحے پڑھاتے ، ان کی تقریر