ماحول تھا ، امتحان یونہی ایک مشکل مرحلہ ہے ، پھر ماحول کارُعب اسے اور مشکل بنادیتا ہے ۔ کچھ دیر کے بعد میرانام بھی پکارا گیا، میرا دل ہل گیا ، مگر ابوالعاص کی ہدایت کے مطابق میں اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ پھر دوسرے کانام پکارا گیا اور میری چڑھی ہوئی سانس پُرسکون ہوگئی ، ابوالعاص آیا ، تو مجھے واپس لے گیا ، ظہر کے بعدمیں پھر حاضر ہوا، اس وقت بھی میرا نام پکارا گیا ، مگر ابوالعاص نے جانے نہ دیا ، دوسرے دن صبح کو امتحان ہال میں مجھے جانے ہی نہ دیا کہ آج کوشش کرتے ہیں ، مولاناوحید الزماں صاحب کے پاس سے امتحان ہٹ جائے تو اچھا ہے ، ورنہ اگر انھوں نے فیل کردیا تو احیاء العلوم کی ناک کٹ جائے گی ، کہ وہاں کے ذہین ترین طالب علم تمہیں ہو ، اب میں اکتا چکا تھا ، دوپہر تک کوشش کامیاب نہیں ہوئی ۔ میں ظہر بعد امتحان ہال میں حاضر ہوا، اور میرانام پکارا گیا ،ابوالعاص روکتا ہی رہا ، مگر جھٹک کر میں چل دیا اور مولاناوحید الزماں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا ، مولانا نے ابتداء ً تعارف کے لئے کچھ پوچھا ، پھر انھوں نے ہدایہ ثانی کا کوئی صفحہ کھولا، عربی بولنے کے انداز میں انھوں نے عبارت پڑھوائی ، اور فرمایا کہ کتاب بند کرکے حاصل مطلب سمجھائیے ، کتابوں کے مذاکرۂ وتکرار کی وجہ سے مجھے مضامین حفظ بھی تھے ، اور بیان کرنے کی قدرت بھی تھی ، میں نے مختصر لفظوں میں جیسے استاذ کے سامنے کوئی بات عرض کی جاسکتی ہے ، مطلب عرض کردیا، مولانا نے بہت غور سے سنا اور کتاب ہٹادی ۔ پھر دیوان متنبی کاایک صفحہ کھولا ، اور چند اشعار پڑھوائے ، ترجمہ اور مطلب پوچھا ، میں نے عرض کیا ۔ ایک لفظ پر انھوں نے ٹوکا، میں نے اپنے ترجمہ پر اصرار کیا ۔ انھوں نے وضاحت چاہی ، میں نے عرض کیا کہ جو ترجمہ میں کررہا ہوں ، وہ فلاں مصدر کے فعل کا ہے ، اور حضرت جو کچھ فرمارہے ہیں ، اس کا مصدر دوسرا ہے ، یہ ترجمہ اس محل پر خوب منطبق نہیں ہوتا ۔ مولانا کے چہرے پر مسرت کے آثار ظاہر ہوئے ، مجھے اطمینان ہوا۔ پھر وہ صفحہ کھولا ،جو میرا پڑھا ہوا نہیں تھا ، جی میں آیا کہ کہہ دوں کہ حضرت! یہ پڑھاہوا نہیں ہے ، لیکن اس سے پہلے ہی مولانا نے فرمایا کہ عبارت اس طرح پڑھو کہ معلوم ہوکہ سمجھ کر پڑھ رہے ہو ، عبارت پڑھنے کا ملکہ تو تھا ہی ، اﷲ جانے میں کچھ سمجھا یا