ہوئی، دریافت کرنے پر معلوم ہواکہ یہی مولانا وحید الزماں صاحب ہیں ، اس وقت کے دارالعلوم کے سب سے مقبول اور معروف استاذ!
ان سے تھوڑے فاصلے پر مولانا فخر الحسن صاحب تشریف فرما ہیں ، ان سے قدرے ہٹ کر مولانا بہاری صاحب رونق افروز ہیں ۔ یہ سب حضرات دار الحدیث کی مغربی دیوار کی جانب متمکن تھے، جنوبی دیوار جو عرض میں ہے، ادھر ایک گورے چٹے وجیہ بزرگ بیٹھے تھے، داڑھی خوب بھری ہوئی بالکل سفید ، دہن مبارک پان سے بھراہوا ، بدن کسی قدر بھاری ، آنکھوں پر چشمہ ، ہاتھوں میں پان کا بٹوا، مسلسل ہل رہے ہیں ، اور نگاہیں بار بار ادھر ادھر کا جائزہ لے رہی ہیں ، دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ یہ دار العلوم کے استاذ حدیث مولانا شریف الحسن صاحب ہیں ، مولانا کا نام پہلے سے سن چکا تھا، شمالی دیوار کی جانب نگاہ اٹھائی تو ایک صاحب بیٹھے نظر آئے ، پستہ قد ،خوبصورت سے ، ادھیڑ عمر کے چاق وچوبند، معلوم ہوا کہ یہ صاحب دار العلوم کے انگریزی کے استاذ مولوی عزیز بی۔اے ہیں ،امتحان داخلہ میں پاس ہونے والے طلبہ کا حلیہ اور وضع قطع لکھتے ہیں ، دار العلوم میں اس وقت یہ دستور تھا کہ ہر طالب علم کا حلیہ لکھا جاتا تھا، اس وقت مدرسہ میں فوٹو کی لعنت نہیں داخل ہوئی تھی ، پرانے علماء کے اثر سے فوٹو کی قباحت ذہنوں میں اس طرح راسخ تھی کہ اس کا تصور تک نہ ہوسکتا تھا،نیز اس وقت طالب علموں میں آج کے پیمانے پر دھاندلی کا رواج نہیں ہواتھا کہ فوٹو کی ضرورت ہوتی ، حلیہ میں عام شکل وصورت کے علاوہ کوئی خاص علامت بھی درج کی جاتی تھی، جس میں تبدیلی کا امکان کم سے کم ہو، نیز شرعی وضع قطع کی جانچ بھی ہوتی ، سر پر انگریزی بال یا داڑھی منڈی ہوئی یا ترشی ہوئی ہونا خلاف شرع وضع تھی ، اس کی اصلاح کے بغیر داخلہ نامکمل ہوتا۔( ۲۵؍ سال پرانی تحریر یہیں پر ناتمام رک گئی تھی ، اس کے آگے تازہ تحریر ہے۔ اعجاز احمد اعظمی ،۲۳؍ محرم الحرام ۱۴۲۹ھ مطابق ۲؍ فروری ۲۰۰۸ء)
امتحان کے لئے جدید طالب علموں کا نام فارم داخلہ کے نمبر سے پکارا جاتا، ایک چپراسی بلند آواز سے پکارتا ، اور طالب علم ممتحن کی خدمت میں حاضر ہوتا ، یہ ایک پُر ہیبت