گمراہی میں گھسیٹے چلے جاتے ہیں ، پھر ذرا بھی کوتاہی نہیں کرتے۔
اور جو باعزم وہمت انسان ہیں ،آخری سانس تک نبرد آزما رہتے ہیں ، یہاں تک کہ رحمت باری کو جوش آتا ہے ، پھر غیب سے اس کی دستگیری کی جاتی ہے اور منجدھار سے نکل کر ساحل عافیت سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔
یہ وہی خاصانِ خدا ہیں جن کے بارے میں ارشادِ خداوندی ہے:
وَإِذَا مَسَّھُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَإِذَاھُمْ مُبْصِرُوْنَ۔
جب اﷲ والوں پر شیطان کا کوئی حملہ ہوتا ہے تو وہ چونک اٹھتے ہیں ، پس وہ لوگ سمجھ جاتے ہیں ۔
حضرت مولانا الحاج الشیخ اعجاز احمد ذوالمجاز للارشاد والاصلاح کی شخصیت انھیں خاصان خدا میں سے ایک ہے جن کی زندگی کاایک ایک لمحہ زندگی کے سمندر کی موجوں میں الجھتا اور سلجھتا نظر آتا ہے اور قدم قدم پر رحمت الٰہی کی مخفی طاقتوں سے دستگیری ہوتی رہی ہے ، محترم مولانا موصوف کی زندگی ایسی ہی معلوم ہوتی ہے ، جیسے علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی ترجمانی کررہی ہو ؎
نہنگے بچۂ خودرا چہ خوش گفت حرام آمد بدین ما کرانہ
بموج آویز واز ساحل بہ پرہیز ہمہ دریا است مارا آشیانہ
عاقبۃ الامر مولانا کو اﷲ نے اپنے خاص فضل وکرم سے علمی وعملی ، تحریری وتقریری ، اصلاح خلق وفریضۂ دعوت واصلاح کے کمالات سے وافر حصہ عطا کیا اور ان کیلئے حکمت (احقاق حق ) جدال ( ابطال باطل) اور موعظت وشفقت کے دروازے کھول دیئے۔
وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْراً کَثِیْراً ۔ جس کو حکمت عطا کی گئی اس کو خیر کثیر دیا گیا۔
مولانا موصوف کی تحریریں اور مواعظ میری مذکورہ باتوں کی تائید کریں گی ، یہ باتیں عقیدت مندانہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ میرا ایک دلی اور ذاتی تاثر ہے ، جس کا میں نے آج اظہار