جی چاہتا ہے، آنے والے کے متعلق کسی سے نہیں پوچھا ، کیونکہ میرے دوستوں نے بتا رکھا تھا کہ اس ہیئت کے جو بزرگ نظر آئیں ، سمجھ لینا کہ وہ دار العلوم کے مشہور استاذ مولانا محمد حسین صاحب بہاری ہیں ، جو طلبہ کے عرف میں ’’مولانا بہاری ‘‘ کے نام سے مشہور ہیں ۔
یہ منظر ختم ہوا ، اور میں سنتوں میں مشغول ہوگیا، سلام پھیرا تو دیکھتا ہوں کہ تھوڑے فاصلے پر ایک اور بزرگ نماز پڑھ رہے ہیں ، پھر میں نے ایک ایسا منظر دیکھاجو میرے لئے سخت باعث حیرت تھا ، دیکھا کہ چند طلبہ مسجد میں داخل ہونے کے لئے جوتے اتار رہے ہیں ، اور یہ نمازی بزرگ جو ہاتھ باندھے ہوئے تھے ،سر گھماکر ان طلبہ کو دیکھنے لگے ، میں حیرت میں ڈوب گیا ، مجھے احیاء العلوم مبارک پور کا وہ نومسلم یاد آگیا ، جو حضرت الاستاذ مولانا شمس الدین صاحب کے ہاتھوں پر ایمان لایا تھا ، مولانا اسے مدرسہ میں لائے تھے ، وہ ہم لوگوں سے قرآن پڑھتا تھا اور نماز سیکھتا تھا ، وہ معمر تھا ، چند ماہ میں اس کے چہرے پر خوبصورت داڑھی آچکی تھی، لیکن نماز میں وہ اکثر دھوکہ کھاجاتاتھا، نماز میں مشغول ہوتا اور کوئی آجاتا تو سر گھماکر دیکھنے لگتا، اور لڑکے ہنس پڑتے ، میں سوچنے لگا کہ شاید یہ بھی کوئی نومسلم ہو، لیکن حلیہ بتارہا تھا کہ کوئی بڑے عالم ہیں ، سر پر اونی رومال کا ہرا صافہ جو اگرچہ بے ترتیبی کے ساتھ لپیٹا گیا تھا ، مگر بھلا معلوم ہوتاتھا، خاصا لمبا کرتا، خوبصورت پاجامہ، بڑی داڑھی، قدرے لمبا چہرہ، گندم گوں رنگ، میں نے پہلو والے رفیق سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں ؟ بتایا کہ یہ مولانافخر الحسن صاحب شیخ التفسیر ہیں ، میں ان کی عظمت کے تصور میں ڈوب گیا، میں نے مولانا کے چرچے بہت سن رکھے تھے، لیکن اس عظمت کے ساتھ مولانا کے مذکورہ بالا عمل کی اس وقت میں کوئی تطبیق نہ دے سکا، شاید کوئی استغراقی کیفیت تھی، میں اپنے خیالات میں غرق تھا کہ اقامت شروع ہوئی ، ایک ملیشیاوی طالب علم اپنے مخصوص لہجہ میں بلند آہنگی کے ساتھ تکبیر کہہ رہا تھا، ادھر کانوں میں تکبیر کا آوازہ گونج رہاتھا،اُدھر میں تخیلات میں کھویا ہواتھا ، مجھے عہد اسلامی کے مدارس یاد آرہے تھے ، مسلمانوں کی شان وشوکت کا زمانہ ذہن کے پردے پر نمایاں ہورہاتھا، نماز شروع ہوئی ، ختم ہوئی، تھوڑی دیر کے بعد گھنٹہ