آسودگی نہیں ہوتی، سرخ سرخ عمارت جس کی دیواروں کو ظاہری ملمع سے چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ، ایسا لگتا ہے جیسے شاہانِ مغلیہ کے دور کا کوئی قلعہ ہو، یہ عمارت اپنے اندر ایسی دل آویزی رکھتی ہے کہ ہرہر اینٹ کو نقد جان کانذرانہ پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
ایک نووارد مسافر، ایک بڑے دروازے کے سامنے مبہوت کھڑا ہے، اس کا رفیق اسے بتارہا ہے کہ یہی دار العلوم دیوبند ہے، یہ معراج گیٹ ہے، نووارد مسافر کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا ہے کہ جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے، یہ بیداری کی حقیقت ہے، یا خواب کاافسانہ ہے؟ لیکن یہ واقعہ تھا ، اس پر یقین کرنا ہی تھا ، دل عظمت کے بوجھ سے دبا جارہا تھا ، قدم اٹھانے کا حوصلہ ہمت ہاررہاتھا ، لیکن محبت کی کشش دوڑ کر لپٹ جانے پر اکساتی تھی ، جذبۂ محبت نے فتح پائی ، شوق نے پاؤں کو حوصلہ دیا، سامان اٹھاکر زبان ودل سے بسم اﷲ پڑھتا ہوا گیٹ کے اندر داخل ہوا، جونہی اندر داخل ہوا، نگاہیں بے اختیار اوپر اٹھ گئیں ، سامنے دار التفسیر کا عظیم گنبد آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا ، نہ جانے کتنی مدت سے کھڑا ،وہ طالبان علوم نبوت کااستقبال کررہا ہے، وہ روشنی کا ایک مینار ہے جس کے گرد پروانوں کا ہردم ایک ہجوم رہتا ہے، ہرسال ایک قافلہ آتا ہے تاکہ اس سے کسب نور کرے ، اور ایک قافلہ رخصت ہوتا ہے ، تاکہ جہل وبدعت کے اندھیروں کو دور کرے، میرے جذبۂ شوق نے اسکی عظمت کو جھک کر سلام کیا۔
پرانا رفیق ہمراہ تھا ، اس لئے نہ کسی سے کچھ پوچھنا پڑا، نہ کسی کی جستجو میں پریشانی اٹھانی پڑی، مولوی ابوالعاص سیدھے مجھے دار جدید کمرہ نمبر ۷۰ میں لیکر پہونچے ، وہاں میرے سب رفقاء موجود تھے ، وہ مجھے دیکھتے ہی کھل گئے ، وجہ تاخیر پوچھنے لگے ، میں نے سب کو تفصیل سے بتایا، ساتھیوں سے معلوم ہوا کہ ان کے امتحانات داخلہ ہوچکے ہیں ، اور سب کو ۳۵نمبر ملے ہیں ، اور یہ آخری نمبر ہے جس پر مطلوبہ کتابیں ملتی ہیں ، اور مدرسہ سے امداد جاری ہوتی ہے، میرے ساتھیوں میں کچھ اچھے ذہین وفطین بھی تھے ، اور کچھ کودن وغبی بھی ، امتحان میں سب کو یکساں نمبر ملے، اس سے مجھے حیرت ہوئی، یہ بات میرے لئے معمہ تھی،