صاحب بہت مضطرب ہوئے ، ڈاکٹر کو بلالائے ، زود اثر دوائیں دی گئیں ، شام تک بخار کا طوفان جس تیزی کے ساتھ چڑھا تھا اسی تیزی کے ساتھ اتر گیا۔
۸؍شوال کو بخار جاچکا تھا ، مگر اس کی تیز گامی نے ضعف وناتوانی کی جو گرد اڑائی تھی، اس نے ناک میں دم کردیاتھا ، شام تک شکست خوردہ قوت قدرے واپس لوٹی ، اور ضعف کا خیمہ اکھڑنے لگا، ۹؍ کی صبح میں اس لائق تھا کہ کسی طرح مبارک پور پہونچ جاؤں ، خیال یہ ہواکہ شام ہی کو سب سے ملاقاتیں کرلی جائیں ، تاکہ صبح سویرے مبارک پور پہونچ کر اسی دن ٹرین سے روانگی ہوجائے ، سر شام ہی سے گاؤں میں دوڑتا پھرا، اساتذہ کی دعائیں لیں ، احباب سے ملاقاتیں کیں ، سب سے آخر میں نانیہال پہونچا، جو اپنے گھر کے بعد میرا سب سے بڑا مرکز محبت تھا ، بہت دیر تک وہاں رہا، نانی اور خالہ پیار کرتی رہیں ، دل بہلاتی رہیں ، خالہ نے زادِ سفر کے طور پر عمدہ حلواتیار کیا تھا ، جب میں رخصت ہونے لگا تو اس نے حلوا میری طرف بڑھایا ، میں نے دیکھا کہ اس کا ہاتھ کانپ رہا ہے، میں ایسا نادان کہ اس تھرتھراہٹ کی علت نہ سمجھ سکا، جلدی سے میں نے ہاتھ بڑھا کر حلوا تھام لیا ، اس کا ہاتھ آنچل کو لئے ہوئے آنکھوں تک جاپہونچا، اس نے ضبط کی بہت کوشش کی ، مگر دل نے انکار کردیا، آنکھیں ابل پڑیں ، وہ اپنے آنچل میں اسے چھپانے کی کوشش کررہی تھی ، اب میں سمجھا ، معاً میرے دل میں بھی درد کا ایک طوفان اٹھا ، مگر میں تیزی سے بھاگ نکلا ، بڑی مشکلوں سے میں نے خود کو تھاما، آنسوؤں کے چند قطرے ادھر بھی ڈھلکے ، لیکن میں انھیں چھپانے میں کامیاب رہا۔
رات کو میں یہ سوچتا رہا کہ کل اکیلے سفر کرنا ہوگا، ساتھی سب جاچکے ہیں ، کیا ہوگا؟ اتنا لمبا سفراکیلے کیسے طے ہوگا؟ اب تک جو بڑے سے بڑا سفر کیا تھا ، وہ بنارس اور الہ آباد تک کیا تھا، اچانک اتنا طویل سفر کیونکر ہوگا؟ اب شوق کے دامن میں خوف وہراس بھی چمٹ چکاتھا۔
۹؍ کی صبح طلوع ہوئی، تو طبیعت کا مطلع صاف تھا ، فجر کی نماز پڑھ کر فوراً مبارک پور