سمندر کی آغوش میں گرتی ہیں ، ہر جگہ کا صاف ستھرا شفاف پانی ، اسی بحر مواج میں شامل ہوتا ہے، وہاں اپنی انفرادیت کس طرح قائم ہوسکے گی، دارالعلوم کا رعب، وہاں کے اساتذہ کی عظمت ، وہاں کے ماحول کی دہشت، دل ودماغ پر چھائی ہوئی تھی، تاہم وہاں پہونچنے کی خوشی اس سارے رعب ودہشت پر غالب تھی، کبھی کبھی دل میں آرزو اٹھتی کہ جانے سے پہلے ایک بار خواب میں وہاں کی زیارت ہوجاتی، لیکن میری طبیعت کا عجب انداز ہے، جس چیز کا خیال جتنا زیادہ دل پر مستولی ہوتا ہے، اسی قدر وہ خواب سے دور ہوتی ہے، میرے یہاں خواب وخیال کا اجتماع شاذ ونادر ہوتا ہے، خواب میں اکثر وہی باتیں دیکھتا ہوں ، جن کا مدتوں تصور بھی نہ ہواہو، اس لئے اس باب میں بھی خواب کا دروازہ بند تھا ، بس تخیل نے تصورات کے جو خوبصورت ، باعظمت اور پُرشوکت پیکر ڈھالے تھے ، وہی میری شادمانی ومسرت کا سرمایہ تھے، میں دن رات انھیں تصورات میں غرق رہتاتھا ، والد صاحب میری ضروریات کے سامان فراہم کرنے میں مصروف تھے ، دیوبند میں سردی زیادہ پڑتی ہے، اس لئے لحاف اچھااور موٹا ہونا چاہئے، وہ بنوایا جارہا ہے، کپڑے نئے خریدے اور سلوائے جارہے ہیں ، بہنیں بھی خوش تھیں ، اور اتنے طویل سفر کا پہلا اتفاق ہے ، اس لئے ہراساں بھی تھیں ، ان دنوں رہ رہ کر مجھے ماں یاد آرہی تھی، ماں ! جس کے دیدسے ، میرے شعور کی آنکھیں محروم تھیں ، جس کی مامتا مجھے ملی ضرور، مگر عمر کاکارواں ، ابھی دوسرا ہی مرحلہ عبور کرکے کچھ آگے بڑھا تھا کہ میں اس سے بچھڑ گیاتھا ، اور وہ مجھے زندگی کی دشوار گزار راہوں پر والد کی انگلی پکڑا کر خود آغوشِ رحمت میں جا سوئی ، میرا حافظہ باوجودیکہ بچپن میں بہت اچھا تھا ، مگر ذہن میں اس کی دھندلی سی بھی تصویر نہیں پاتا، البتہ اتنا یاد ہے کہ گھر کا اندرونی دروازہ ہے ، جس کے بعد آنگن شروع ہوجاتا ہے، اس کے اندر نانی محترمہ تصویر یاس بنی کھڑی تھیں ، اور بیرونی جانب والد صاحب سراپا درد بنے خاموش تھے، اور میں دونوں کو اس طرح دیکھ رہا تھا، جیسے یہ سوچ رہاہوں کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ بس اتنی ہی تصویر حافظہ نے محفوظ رکھی ہے، اور اس کو متاع زندگی سمجھ کر آج تک نہاں خانۂ دل میں محفوظ رکھے ہوئے ہوں ، اور اکثر تخیل کی مدد