لیکن اس ساری تفصیل سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ مطالعہ کے علاوہ کسی اور چیز سے مجھے دلچسپی تھی ہی نہیں ، یہ سچ ہے کہ قلبی لگاؤ اور فطری دلچسپی تو کتابوں ہی سے تھی ، مگر اس کے ساتھ اپنی معلومات کو بیان کرنے کا بھی شوق تھا ، چنانچہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میرے احباب مجھے چھیڑتے ،اور ولولۂ تقریر جاگتا بس پھر کیاکہئے، رات آنکھوں میں کٹ جاتی، مجھے اکثر گفتگو میں ربودگی اور بے خودی کی کیفیت طاری ہوتی، اور اس وقت گل افشانی ٔ گفتار کامنظر قابل دید ہوتا ، باتوں کی محویت نے مجھے بہت جگایا ہے، باتیں ہر طرح کی ہوتیں ۔ علمی ، دینی، تاریخی ، تفریحی، فضول بک بک،لغو مباحثے، یہ سب تکلم کی لمبی دیوار کے اینٹ گارے تھے ، آخر گفتگو میں درازی کیونکر آتی ، لطائف وظرائف اور اقوامِ پارینہ کے قصص واساطیر کا بھی خاصا حصہ ان مجالس میں ہوتا۔ کبھی کبھی آپس میں لڑائیاں بھی ہوجاتیں ۔
اس گفتگو کو یہیں ناتمام چھوڑئیے، اپنی دلچسپیوں کی تفصیل کے لئے یہ جملۂ معترضہ کافی نہ ہوگا، ابھی میں اپنے آئینۂ ماضی کے اس حصہ سے نسیان وفراموشی کی گرد صاف کررہا ہوں ، جس میں میرے دیوبند جانے کی تیاریوں کی تصویر منعکس ہورہی ہے، میں آج بھی جب ماضی کے اس دھندلے آئینہ کو ذرا شفاف کرکے دیکھتا ہوں ، تو صاف نظر آتا ہے کہ پہلی رمضان سے ۲۵؍ رمضان تک کی مدت میں روزوشب کی سفید وسیاہ چادریں اس طرح پھیلتی اور سمٹتی رہیں ، جیسے طویل کوہستانی سلسلے میں پھیلی ہوئی سرنگوں میں ٹرین چلتی ہے، کہ اچانک سرنگ میں گھسی اور چند لمحوں کے لئے اندھیرا چھایا،پھر دوسرے ہی لمحے سورج کی روشنی میں آنکلی، ریل گاڑی ان سرنگوں میں گھستی اور نکلتی رہتی ہے، اور مسافر اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے ، چند ثانیے کے لئے جب گپ اندھیرا ہوتا ہے، تو مسافر آنکھیں بند کرلیتا ہے، پھر جونہی روشنی کی کرن آتی ہے، اپنے کام میں مصروف ہوجاتا ہے، ہم دونوں کا حال اسی مسافر کی طرح تھا، ہماری زندگی کی تیز رفتار گاڑی اسی طرح کبھی رات کی سرنگ میں جا داخل ہوتی ، لیکن یہ لمحہ تھوڑا ہوتا، پھر ایک دم میں روشنی پھیل جاتی،اور جو کتاب اجالے میں کھلی تھی ، اسے اندھیرے میں بند کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔