بھی نفور تھی، خوشامد برآمد کرکے، ناظم کتب خانہ سے میں نے خود کو اس قانون سے مستثنیٰ کرالیاتھا، مجھے دن میں بعض اوقات کئی کئی بار کتابیں لینے کی نوبت آتی ، ناظم کتب خانہ کو میرے اوپر اعتماد ہوگیاتھا ، ان کی طرف سے علی الاطلاق اجازت تھی ، یہی بے ڈھنگی رفتار دیوبند میں قائم رہی ، چند دنوں تک تو ناظم شعبۂ مطالعہ مولوی محمد حنیف صاحب ( مرحوم) سے آنکھ مچولی ہوتی رہی ، وہ اپنے اصول کے بہت پابند تھے ، بات بات پر گرفت کرنے کے عادی، طلبہ ان کی بے دماغی سے نالاں رہتے، مگر وہ اپنے اصول وقواعد کے مقررہ راستوں سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہوتے ، اس لئے ابتداء میں مجھے بھی ان کے اصول وضوابط کی دشوار گزار راہوں سے گزرنا پڑا، اور اس طرح گزرنا پڑا کہ روزانہ ہم دونوں ایک مرتبہ باہم دست وگریباں ہوتے ، مگر آخر وہ بوڑھا سپاہی تھک گیا، اس کے اصول میرے لااُبالی پن اور بے ترتیبی کے سامنے شکست کھاگئے ، پھر میں ہوتا اور میری تپائی پر غیر مندرج کتابوں کا ڈھیر! اور جب تک کتب خانہ کاوقت ساتھ دیتا، اس سے کچھ آگے ہی جاکر اس کا دامن چھوڑتا، مولوی صاحب ڈانٹتے کہ بارہ کا گھنٹہ ہوگیاہے، جاؤ کھانا کھاؤ، ارے مرجائے گا، وغیرہ، اور میں وقت کی تنگ دامانی کی شکایت اور مزید مطالعہ کی حسرت لئے اٹھ کھڑا ہوتا، اﷲ رکھے طبیعت کا وہی رنگ اب بھی باقی ہے، مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے کتب خانہ کی نہ جانے کتنی کتابیں رجسٹر کی نگاہوں سے بچاکر الماریوں سے نکالی جاتی ہیں ، اورواپس ہوجاتی ہیں ، یہاں بھی ناظم کتب خانہ کرم فرما ہیں ۔(۱)
بہر حال یہ علمی سفر ہوتا رہا، اس وقت بچپن ،جوانی سے ہم آغوش تھا ، طبیعت ، افسردگی اور پژمردگی کے مفہوم سے ناآشنا تھی، نہ کبھی تکان کااحساس ہوتا، نہ اکتاہٹ ہوتی ، بس ایک دھن تھی کہ پڑھتے چلے جاؤ، ہرقسم کی کتابیں پڑھتا، اردو تو اپنی مادری زبان تھی، فارسی کی شدبد برائے نام تھی ، عربی کی تحصیل کا زمانہ تھا ، تینوں زبانوں کا مطالعہ جاری رہتا، اردو زیادہ، عربی دوسرے نمبرپر، اور کسی قدر فارسی!
------------------------------
(۱) جن دنوں یہ تحریر لکھی گئی ،میں مدرسہ ریاض العلوم گورینی جونپور میں مدرس تھا۔