لئے از حد ناخوشگوار تھی ، اور میں ہمیشہ اپنے تئیں اسی یقین پر قائم رہا کہ میرے جیسا شخص اساتذہ کی نگاہوں میں بار نہیں پاسکتا، اور نہ کبھی اس کی سرخروئی کی کوئی صورت بن سکتی، شرمندگی، حرماں نصیبی اور بے وقعتی کے علاوہ اور کچھ میرے مقسوم میں نہیں ہے۔
لیکن اس کا ایک فائدہ کبھی کبھی دل کو خوش کرجاتاتھا ، گوکہ وہ خوشی بس ایسی ہوتی، جیسے سخت اندھیری بدلیوں میں کبھی کوئی بجلی کوندجائے ۔فائدہ یہ کہ میں نکما اور ناکارہ قرار پاکر جب ہر کام سے معاف کردیا گیا ، اور کتابیں پڑھنے کا بے پناہ شوق دل میں ہر وقت موجیں مارتا رہتا تھا ، تو اس شوق کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوتی، اگر اور کاموں کا کوئی سلیقہ ہوتا، توہرگز اس طرح کتابوں کے اوراق سے لپٹا نہ رہ سکتا، جیسے مواقع اس صورت حال میں مجھے ملے ہیں ۔ پڑھنا میرا ذوق ہے ، لکھنے سے مناسبت نہیں ہے ، والد صاحب ہمیشہ تاکید کرتے کہ حاصل مطالعہ لکھ لیا کرو، علوم کا ذخیرہ ہاتھ میں رہے گا، لیکن میں سوچا کرتا کہ جتنی دیر میں ایک صفحہ لکھوں گا، نہ جانے کتنے صفحے پڑھ لوں گا ، کاش ان کی بات مان لی ہوتی ، تو اب حافظے کے دغا دے جانے کے بعد اس کا فائدہ حاصل ہوتا، لیکن افسوس بالائے افسوس میری بے حسی پر یہ ہے کہ نہ بھولنے کا کوئی رنج ہے اور نہ حافظہ خراب ہونے پر کوئی افسوس ہے، بس اب بھی اگر کوئی دھن ہے تو یہی کہ کوئی اچھی کتاب مل جائے، فراغت ہو، اور میں ہوں ، نہ جانے اس کا کیا فائدہ؟ مگر اپنی مہمل طبیعت کو دیکھتا ہوں ، تو سودوزیاں کی سودے بازی سے اسے کوئی مناسبت نہیں ، مطالعہ اور علم مقصود ہے، اور وہ خودفائدہ ہے ، بھولنا ا نسان کی فطرت ہے ، دس باتیں پڑھے گا ، تو ایک یاد رہے گی ، سفر آگے کو جاری ہے، پیچھے مڑکر کون دیکھے کہ کون کون سی منزلیں گزریں ۔
بہر حال میری یہ بے ہنری اس وقت خوب کام آئی، ناظم صاحب کی اجازت سے ہم دونوں بالائی منزل کے ایک کمرے میں مقیم تھے ، نیچے دار الاہتمام میں سفراء مدارس، مہمانوں اورقصبہ کے لوگوں کا ہجوم رہتا، ہروقت چپراسیوں اور بعض خدام کی پکار پڑتی رہتی، مگر ان میں ایک ناکارہ ایسا بھی تھا ، جو کبھی آواز دئے جانے کا مستحق نہیں سمجھاگیا، اب بھی