تم گلے سے مل گئے ، سارا گلہ جاتارہا
پھر تو ہرروز ،روزِ عیدتھا ، اورہر شب، شب قدر! مختصر المعانی ، ملاحسن اور دیوان متنبی کی ورق گردانی ہونے لگی، الطاف تو دن بھر درسی کتابوں میں غرق رہتے ، میں اپنی ڈیوٹی انجام دے کر غیر درسی کتابوں میں کھوجاتا، یاد آتا ہے کہ قصبہ میں بازار والی مسجد کی امامت بھی ذمے پڑی تھی ، تراویح بھی پڑھاتاتھا، وہ مسجد مدرسے سے کسی قدر فاصلے پر تھی ، اتنا آناجانا بھی بہت کَھلتاتھا ، مگر مرتا کیا نہ کرتا، ناظم صاحب کا حکم تھا ،جاتا اور طالب علمی میں جیسی نماز پڑھی جاتی ہے ، پڑھاکر چلا آتا، رمضان کے مبارک ایام تھے ، ہم دونوں سب عبادتوں سے بے نیاز محض کتابوں کے ہوکر رہ گئے تھے ، نہ یہ خبر ہوتی کہ دن کب گزرا، اور نہ یہ ہوش رہتا کہ رات کیسے کٹی، خاموش فضا ملی، مولوی الطاف تومدرسہ میں اجنبی تھے ، میں چار سال کا قدیم طالب علم تھا ، لیکن ہر شخص کو معلوم تھا کہ یہ بے سلیقہ اور بے ڈھنگا طالب علم ہے ، نہ قصبہ کی گلیوں سے واقف ہے ، نہ اسے خرید وفروخت کا کوئی سلیقہ ہے ، دکان پر کھڑا ہونا ، اس کے لئے مجرم بننے کے مترادف ہے ، کسی کام سے کوئی بھیجتا، تو اس کاکام بگڑ جانا میرے لئے لازم حال تھا، اس لئے ہرشخص نے نکما اور ناکارہ سمجھ کر مجھے ہر خدمت سے معاف کررکھاتھا ، ایک لحاظ سے یہ بات میرے لئے سخت تکلیف دہ تھی کہ میں اپنے مخدوموں ، بزرگوں اوراساتذہ کی خدمت سے اپنے بے سلیقہ پن کی وجہ سے بالکل قاصر تھا ۔ دوسرے ساتھیوں کو دیکھتا کہ اساتذہ ان سے کام لیتے، وہ ان کی خدمات سے خوش ہوتے، ان کے کاموں کی تحسین کرتے ، اور وہ اس راہ سے اساتذہ کے قرب کی دولت سے مالامال ہوتے ، مجھے حسرت ہوتی ، دل پر رنج وغم کی بدلیاں چھاتیں ، اپنی کم نصیبی پر افسوس ہوتا ،اور اس کی تلافی کی تدبیریں سوچا کرتا، دل ہی دل میں منصوبے گانٹھا کرتا کہ کوئی موقع آیا تو یوں سبقت کروں گا ، لپک کر یوں خدمت کروں گا ، مگر جب نوبت آتی تو میں کھڑا منہ دیکھتا رہ جاتا اور حریفانِ تیز گام دوڑ کر میرے عزائم کی بنی بنائی پختہ عمارت کو ڈھاکر آگے بڑھ جاتے، اور میں اس کے ملبے پر کھڑا کف افسوس ملنے کے سوا اور کچھ نہ کرپاتا، گو یہ صورت حال میرے