کرسکوں ، آپ کی معیت کی وجہ سے میرا مدرسہ میں رہنا آسان ہوگا، ورنہ مدرسہ کے ناظم صاحب جن سے ہمارے گھریلو تعلقات ہیں ،ا زراہ شفقت وعنایت مجھے گھر جانے کا حکم دیں گے، اور میرا گھر یہاں سے صرف چھ میل کے فاصلے پر ہے ، گھر والے بھی اس پر راضی نہ ہوں گے کہ میں اس قدر قریب رہ کر، گھر سے اور وہ بھی رمضان شریف میں دور رہوں ، ہرسال یہی ہوتا ہے، میں رمضان کی تعطیل میں مدرسہ میں رہ کر کتابوں کے ساتھ لگا لپٹا رہنا چاہتا ہوں ، مگر گھر والے اصرار کرکے اور ناظم صاحب حکم دے کر مجھے مجبور کردیتے ہیں ، اس سال چونکہ مجھے بھی دیوبند جانا ہے، اور آپ کی تیاری کا بھی عذر ہے ، اس لئے امید ہے کہ ہے کہ دونوں جانب سے اجازت مل جائے گی ، مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے انمول خزانہ میرے قدموں کے نیچے نکل آیاہو، بہت دیر تک ہم دونوں محو گفتگو رہے ، مستقبل کے منصوبے بنتے رہے ، رفاقت پر اظہار مسرت ہوتا رہا، ایک دوسرے سے تعاون وتناصر کے عہد وپیمان اُستوار کئے جاتے رہے، چھوٹاسا مدرسہ! محدود آبادی! اساتذہ سے احترام وادب کے ساتھ بے تکلفانہ تعلقات! یہ خبر تھوڑی دیر میں مدرسہ بھر میں آناً فاناً گشت کرگئی، تبصرے ہونے لگے،میں تو اپنی مسرت میں مست تھا ، اور دوسروں کا حال یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں ! میاں ! یہ تو دیوانہ تھاایک سنکی اور مل گیا، اب دیکھو،یہ دونوں کیا گل کھلاتے ہیں ، نہیں بھائی! یہ بہت ہوشیار ہے، اس طرح اپنی پڑھی ہوئی کتابیں خوب پختہ کرلے گا، اور دیوبند جاکر سب ساتھیوں کو مات دیدے گا، ایک نے کہا اجی نہیں ! یہ اس کو تیاری کیاکرائے گا؟دن رات تو غیر درسی کتابوں میں غرق رہے گا،یا پھر کوئی موضوع چھیڑ کر رات بھر اپنی جمع کی ہوئی معلومات اس کو سنائے گا، اور وہ بھی اس کی باتوں میں محو ہوکر اپنا مقصد فراموش کردے گا، پھر آخر میں خالی ہاتھ واپس جائے گا، دوسرے نے ٹوکا،اجی کچھ نہیں ،یہ صاحب رمضان میں آئیں گے ہی نہیں ، کہاں کی بات اور کیسا خیال؟بھلا کوئی گھروالا رمضان میں روکھی پھیکی دال روٹی کھانے کے واسطے مدرسہ میں آنے دے گا، غرض تبصروں کی جھڑی لگ گئی، لیکن میں تھا کہ اپنی مسرتوں کی حلاوت میں گم، ان سارے تبصروں سے بے حس وبے نیاز تھا۔