ہوئی تھی، وہ مدرسۃ الاصلاح سرائمیر کے طالب علم تھے ، مدرسۃ الاصلاح اوردار العلوم دیوبند کے نصاب تعلیم میں عربی زبان اور بعض مضامین کے علاوہ اور کسی بات میں اشتراک نہیں ہے، داخلے کے لئے دار العلوم دیوبند میں وہیں کے نصاب کا امتحان ہوتا ہے ، مولوی الطاف کی تعلیم دوسرے نصاب کے تحت ہوئی ہے ، وہ مضطرب تھے کہ امتحان داخلہ کی کٹھن منزل کس طرح سر ہوگی ، جبکہ دار العلوم دیوبند کا نصاب نہ صرف یہ کہ مختلف ہے، بلکہ بدرجہا مشکل بھی ہے، اصلاح والوں نے اپنے نصاب میں وہ کتابیں رکھی ہیں جنھیں ایک متوسط ذہن کا طالب علم مطالعہ سے حل کرسکتا ہے، اس کے برخلاف دار العلوم کی نصابی کتابیں ایسی ہیں کہ استاذ کی مدد کے بغیر ان کے الفاظ ومعانی کی تہوں میں اترنا مشکل ہے، طالب علم تمرینی اور ورزشی دور میں ہوتا ہے، اگر اسے مشکل مضامین اور ادق کتابوں کے حل کرنے کی استعداد بہم پہونچ گئی، تو سہل مضامین اور آسان کتابوں پر عبور کچھ دشوار نہ ہوگا، دار العلوم دیوبند کا نصاب جس نے سمجھ کر پڑھ لیا وہ کسی کتاب کے پڑھنے اور پڑھانے میں بند نہیں ہوسکتا، لیکن ندوہ اوراصلاح کا فاضل ،اپنا پڑھا ہوا نصاب تو سنبھال لے گا ، مگر دوسری جگہ اس کے پاؤں میں زنجیر ہوگی۔
مولوی الطاف احسن، احیاء العلوم میں اس خیال سے آئے تھے کہ کوئی ذی استعداد طالب علم مل جائے، اور آمادہ ہوجائے، تو اس کی رفاقت میں درس نظامیہ کی بعض اہم کتابیں ایک ماہ میں بقدر مناسبت پڑھ لی جائیں ، تاکہ امتحان کے وقت بالکل اندھیرا نہ رہے۔ وہ مدرسہ احیاء العلوم میں اجنبی تھے ، مدرسہ کے طلبہ نے اپنے روایتی جذبۂ مہمان نوازی کے مطابق الطاف کااستقبال کیا، ان کی ضیافت کی ، اور جب انھوں نے اپنا مدعا بتایا تو کسی نے انھیں بتایا کہ ایسا جنونی اور بے دماغ اس مدرسہ میں فلاں ہے، جو کتابوں کا دیوانہ ہے، کتابوں کی دیوانگی میں نہ اسے گھر کاخیال رہتا ، اور نہ دوسرے تعلقات کی پروا رہتی، اس کے پاس چلو، چنانچہ میرے ہم سبق رفقاء انھیں لے کر میرے پاس آئے، الطاف کی بات سن کر مجھے بہت مسرت ہوئی، میں نے وعدہ کرلیا، آپ ضرور آئیں ، میں آپ کی مدد کرسکوں یا نہ