میں مبتلا ہوگیا تھا، اس کے نتیجے میں میرے اکثر ساتھی میرے سخت مخالف ہوگئے تھے ، لیکن مولوی سمیع اﷲ کی رفاقت اور دوستی مسلسل رہی ، میں نے کچھ دنوں تک اکیلے انھیں کے ساتھ تکرار کیا تھا ، بعد میں دوسرے رفقاء بھی معذرت کرکے میرے ساتھ آگئے ۔
عربی چہارم کے سال میں مولوی سمیع اﷲ غائب ہوگئے ، اور اب کچھ پتہ نہیں کہ وہ کیا ہوئے ؟ میں نے کوئی تحقیق بھی نہیں کی ، طلبہ میں یہ بات مشہور ہوئی تھی کہ وہ بریلوی تھے، بریلویوں میں چلے گئے۔
(۳)مولوی محمد طیب صاحب نیپالی، مجھ سے پہلے احیاء العلوم میں داخل ہوئے تھے ، کتنا پہلے ، یہ مجھے معلوم نہیں ، عربی دوم میں میرا ان کا ساتھ ہوا تھا ، اس وقت ان پر خاموشی کا تسلط تھا ،ایسی خاموشی کہ شایددوچار دن میں گفتگو کا کوئی کلمہ زبان سے نکالتے رہے ہوں ، استعداد کمزور تھی ، حضرت مولانا محمد مسلم صاحب نور اﷲ مرقدہٗ کا رعب غالب تھا، اس لئے علم الصیغہ میں بہت محنت کرتے تھے ، یہ کتاب مولانا کے پاس ظہر کے بعد پہلے گھنٹے میں تھی ، میں دوپہر کا کھانا جاگیر سے کھاکر جونہی کمرے میں آتا، میرے پیچھے یہ بھی آجاتے ، کتاب کھول کر بیٹھتے اور سبق کی سطر سطر پر انگلی پھیرتے اور میں ترجمہ کرتا رہتا، یہ بھی آہستہ آہستہ دہراتے رہتے ، دوتین مرتبہ میں ترجمہ کردیتا ، اور یہ کتاب لے کر واپس ہوجاتے ، پھر ظہر تک اسے خوب رٹتے ، سال بھر یہ سلسلہ چلتا رہا ، لیکن یاد نہیں کہ کبھی سبق کے علاوہ اور کوئی حرف تکلم آشنا ہوا ہو۔
عربی دوم اورسوم تک یہی حال رہا ، مگر چہارم میں آکر جوبولنا شروع کیا ہے تو پچھلے دنوں کی قضا کرڈالی ، بہت بولتے تھے ، اچھی باتیں بھی ، اور ان کے علاوہ بھی! مگر مجموعی اعتبار سے خیراُن میں غالب تھا ۔
پھر ہم لوگوں کے ساتھ دیوبند گئے ، وہاں سے فراغت کے بعد معلوم ہوا کہ مدینہ یونیورسٹی جاپہونچے ، پھر وہاں سے کہاں پہونچے ،معلوم نہیں ، ایک مدت کے بعد ایک مرتبہ ادھورا رابطہ ہوا تھا ، پھر کچھ پتہ نہیں ، اﷲ تعالیٰ انھیں اچھا رکھے۔