مرحوم بھی ایک صاحب ذوق اور باصلاحیت بزرگ تھے ، لیکن تعلیم وتدریس کا مشغلہ نہ تھا، اس لئے علمی دنیا میں ان کا کوئی نام نہ تھا ، مگر ان کے پاس کتابیں بہت اچھی اور معیاری تھیں ، مجھ سے مولوی حفظ الرحمن نے ان کتابوں کا ذکر کیا تھا ، تو میں ان کے ساتھ بار بار ان کے گھر گیا، ان سے کتابیں لیں اور ان کا مطالعہ کیا ، اب ان کتابوں کے نام تو یاد نہیں ، لیکن یہ یاد ہے کہ علامہ طنطاوی کی کئی کتابیں وہاں سے لے کر میں نے پڑھیں ، ایساخیال آتا ہے کہ ایک کتاب جواہر القرآن تھی ، وہ مجھے بہت پسند آئی ، اور اس کا بار بار مطالعہ کیا ۔
مولوی حفظ الرحمن صاحب نے اس زمانے میں مدیر صدق مولانا عبد الماجد صاحب دیابادی علیہ الرحمہ سے مراسلت کی طرح ڈالی تھی ، سوالات لکھ کر وہ بھیجتے ، اور مولانا صدق جدید میں ان کے جوابات شائع کرتے تھے ۔
میں عربی پنجم کے بعد دیوبند چلا گیا ، وہ نہ معلوم کب ندوہ گئے ؟ کب فارغ ہوئے ؟ کہاں کہاں رہے؟ اب وہ جے پور میں کسی مدرسے میں مدرس ہیں ، کبھی کبھی ٹیلیفون سے بات ہوئی ہے۔
(۲)مولوی سمیع اﷲ صاحب پرتاپگڈھی ، عربی سوم میں داخل ہوئے تھے ، بریلوی تھے ، کسی بریلوی مدرسہ میں پڑھ کر آئے تھے ، خود کو ایسا ظاہر کررہے تھے کہ بریلوی نہیں ہیں ، کسی مجبوری میں اب تک بریلویوں کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ہے ، کتابوں کی استعداد کمزور تھی مگر تقریر وخطابت میں فرد تھے ، پورے مدرسہ میں ایک بھی طالب علم ان کی ٹکر کا خطیب نہ تھا ۔ ایسی پُرجوش اور رواں دواں تقریر کرتے تھے ، کہ ایک سماں بندھ جاتا تھا ، اسی زمانہ میں جامعۃ الرشاد اعظم گڈھ میں مولانا مجیب اﷲ ندوی مرحوم نے تقریری مقابلہ کرایا تھا ، متعدد مدرسوں کے طلبہ شریک ہوئے تھے ، ہمارے مدرسہ کے بھی دو طالب علم مولوی سمیع اﷲ اور مولوی محمد احمد دلدار نگر والے شریک ہوئے ، اور پہلا ودوسرا انعام بالترتیب دونوں نے حاصل کیا تھا۔
میں نے پہلے کہیں لکھا ہے کہ عربی سوم کی تعلیم کے دوران ہی کچھ ناگفتنی احوال