مولانا آزاد کے انتقال کے بعد اردو کے متعدد رسالوں نے خاص نمبر شائع کئے تھے ، مجھے سب تو نہیں البتہ ’’نئی دنیا‘‘ کامولاناآزاد نمبرجس کے ایڈیٹر مولانا عبد الوحید صدیقی تھے ہاتھ آگیاتھا، یہ ایک متوسط ضخامت کا خصوصی شمارہ کتابی سائز پر تھا ، اسے مہینوں ساتھ لئے لئے پھرا، اور بتکرار پڑھتا رہا ، مجھے مولاناآزاد کی زندگی اسی وقت حفظ ہوگئی تھی ، میں ان کے احوال زندگی اور ان کے کارنامے بے تکلف بیان کرسکتا تھا ۔ان کی کتابیں مجھے اس وقت ملیں جب میں مبارک پور آگیا تھا ، پھر غبار خاطر اور تفسیر سورہ فاتحہ بہت انہماک سے پڑھی تھی ، اخبارات کا مجھے ذوق نہ تھا ، لیکن ہر لکھے ہوئے کاغذ کے پڑھنے کا جنون ان کو بھی شامل تھا ۔ گاؤں میں اخبار ’’سیاست‘‘ کے علاوہ کوئی اخبار نہیں دیکھا تھا ، مبارک پور میں الجمعیۃ اور قومی آواز دیکھنے کو ملا ، اس کے علاوہ حضرت اقدس شیخ الاسلام کے متعلق بہت کچھ پڑھ چکاتھا ، اس وقت تک ماضی قریب کے علماء میں غالباً سب سے زیادہ دل کا تعلق انھیں بزرگوں سے تھا ۔ حافظ توفیق احمد صاحب نے مولانا آزاد پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردی ، میں حافظ صاحب کا بہت احترام کرتا تھا ، وہ مجھ سے عمر میں بھی اور درجے میں بھی بڑے تھے ، پھر انجمن کے صدر بھی تھے، مجھے ان کے سامنے بولنے کا یارا نہ تھا ، لیکن مولانا آزاد پر ان کا حملہ اتنا جارحانہ تھا کہ میں برداشت نہ کرسکا ، میں بے تکان مولانا کے احوال ، ان کی ذہانت وذکاوت کے واقعات ، ان کے ملکی اور ملی کارنامے خاص طور پر اردو زبان کے سلسلے میں ان کی خدمات اور ان کی شخصیت کی عظمت ورفعت بیان کرنے لگا ، وہ ہر تھوڑے وقفہ کے بعد کوئی چبھتا ہوا سوال کردیتے اور میرا سیلانی ذہن ابل پڑتا ۔ اس دن صبح کی اذان تک مجلس مباحثہ گرم رہی ، اسی وقت کتنی کتابیں کھولی گئیں ، اخبار کی فائلیں ڈھونڈھی گئیں ، غرض میں نے مولانا آزاد کے دفاع میں اپنی طاقت نچوڑدی ، حافظ صاحب پر غصہ بھی بہت آیا تھا ، کہ اتنی محترم شخصیت پر ایسے ایسے جارحانہ اعتراض کئے، جب بحث ختم ہوئی ، تو حافظ صاحب نے ایک عجیب بات بتائی ،کہنے لگے کہ:
’’ تم تو دن رات مدرسے میں رہتے ہو، عوام سے تمہارا سابقہ پڑتا نہیں ، میں اِدھر