میں اس مسئلہ میں بہت متحیر ہواکہ تین روز کوشش کے باوجود وہ بات میری سمجھ میں نہ آئی اوریہاں اچانک کیسے سمجھ میں آگئی ،مدرسہ کے سب سے بڑے عالم استاذالعلماء حضرت مولانا مفتی محمدیسین صاحب نوراللہ مرقدہ کی خدمت میں کسی مناسبت سے یہ بات میں نے ذکرکی توفرمایاکہ طالب علم کے اندرسمجھنے کی استعداد پہلے سے موجود ہوتی ہے،پھر یہ کہ وہ اس پر محنت کرچکاہوتاہے استاذ کے ذہن میں وہ بات روشن ہوتی ہے جب استاذ کے سامنے پہونچتا ہے تو وہ بات بطور تجلی کے صاحب استعداد طالب علم کے ذہن میں منتقل ہوجاتی ہے۔
(۳)…حضرت مولانا محمدمسلم صاحب نوراللہ مرقدہ کے یہاں شرح جامی کا پہلا گھنٹہ تھا، میں رات کو دیر تک جاگتاتھا فجر کی نمازکے بعد تلاوت سے فارغ ہوکر کچھ دیرسوجاتاتھا،وقت سے آدھ گھنٹے پہلے اٹھتا اورشرح جامی کا مطالعہ کرتا پھر درس میں حاضر ہوتا، ناشتہ کا کوئی معمول نہ تھا ایک روز وقت سے چند ہی منٹ پہلے آنکھ کھلی جلدی جلدی عبارت دیکھ لی اطمینان سے مطالعہ کرکے کتاب حل کرنے کا موقع نہ مل سکا میں ساتھیوں کے ساتھ درسگاہ میں حاضر ہواتو ایک دوسرارنگ دکھائی دیا، مولانا کے استاذ حضرت مولانامحمدعثمان صاحب ساحرؔمبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ درسگاہ میں موجود تھے ہمارے مولانا سمٹے سمٹائے ادب سے بیٹھے تھے حضرت مولانا محمد عثمان صاحب اس وقت دھولیہ میں پڑھاتے تھے،ایک سال کے بعد وہ احیاء العلوم میں آگئے اورہم لوگوں کے براہ راست استاد ہوئے ،درس کا وقت ہوگیااستاد شاگرد سب خاموش بیٹھے تھے، مولانا محمدمسلم صاحب ادب کی وجہ سے درس شروع نہیں کررہے تھے اچانک مولانا کی ذہانت نے رخ بدلا فرمانے لگے تم میں سے آج کون سبق پڑھائے گا، اس وقت جماعت میں مولانا کی نگاہ دویاتین طالب علموں پرتھی جویہ خدمت انجام دے سکتے تھے ،مگر ہر طرف سناٹاتھا، مولانا کی نگاہ میں اس وقت تک میں نہ تھا میں نے دیکھا کہ سب خاموش ہیں تو دبی زبان سے میں نے حامی بھری فرمایاپڑھو، میں نے دس بارہ سطریں پڑھیں ، فرمایا بس مطلب کی تقریر کرو ،میں نے ڈرتے