میں نے حکم کی تعمیل میں سولہ تفسیروں کے نام لکھ کر دیدئیے، وہ دوسرے وقت پھر آئے اورکہاکہ کل ایک بریلوی طالب علم سے میری بحث ہوگئی ہے ،وہ آج سمہودی (سمہودی مبارک پور کے جنوب میں ایک جگہ کانام ہے جواس وقت آباد نہ تھی وہاں عیدگاہ ہے اورایک قبرستان ہے ،قبرستان میں ایک مسجد بھی ہے) پر آئے گا،تم بھی علم غیب کے بارے میں مطالعہ کرلو، آج اس سے بحث کرنی ہے اس وقت بریلویوں کے سلسلے میں میرا مطالعہ اچھا تھا،مولانا محمدمنظور صاحب نعمانی کے تمام مطبوعہ مناظرے پڑھ چکاتھا، مولانا محمد حنیف رہبرؔ مبارک پوری کی کتاب المقامع الحدید ازبر تھی ،میں تیار ہوگیا،عصر کی نمازکے بعد سمہودی پر تفریح کیلئے جانے کا طلبہ کا معمول تھا، میں بہت کم جاتاتھا مگر آج گیا ، بریلوی طلبہ نہیں آئے تو صدر صاحب کو خفت ہوئی،انھوں نے دوایک طالب علموں کو ساتھ لیا اورمدرسہ اشرفیہ مبارک پورمیں جاکر اس طالب علم کو بلالائے، اس کے ساتھ بھی چند طالب علم تھے، اس تلاش وانتظار میں مغرب کا وقت ہوگیا، ہلکی سی بارش بھی ہوگئی تھی، قبرستان والی مسجد میں ہم لوگ جمع ہوئے، وہیں اکٹھے مغرب کی نماز پڑھی، نماز ہمارے ہی آدمی نے پڑھائی ،نماز کے بعد بیٹھ گئے، پروگرام یہ بنا کہ صدر صاحب گفتگوشروع کریں گے، اورکسی مناسب موقع پرمیں دخل دے کرگفتگو کو اپنی طرف موڑلوں گا، بات شرو ع ہوئی اوردوسرے ہی لمحے میں ہمارے صدر صاحب نے بے تکان بولنا شروع کیا انھوں نے یہ بھی کہاکہ جس آیت ’’وعلمک مالم تکن تعلم ‘‘ کاحوالہ آپ نے دیا تھا، ہم نے اس کی تفسیر فلاں اورفلاں کتاب میں دیکھی، اورفرفر انھوں نے سولہوں تفسیرکانام لے لیا۔ میں ان کی برجستگی پر حیران تھا ، اس پر بحث کچھ اورآگے بڑھی ،صدر صاحب کے پاس صرف الفاظ ہی کا ذخیرہ تھا ،وہ بھی اب ختم ہورہاتھا تو میں گفتگو کے درمیان دخل اندازہوا اورعلمی پیرائے میں بحث شروع کردی، وہ وعلمک مالم تکن تعلم سے میں ’’ما‘‘کے عموم سے استدلال کررہاتھا،اورثابت کررہاتھا کہ رسول اللہاکو جمیع ماکان ومایکون کا علم حاصل تھا ،اس آیت سے یہ بات ثابت ہورہی ہے۔ وہ دورے کا طالب علم تھا، طلبہ نے بتایاتھاکہ