طرف دھیان گیا ہی نہیں ، جس طرح جس معمول پر زندگی چل رہی تھی ، چلتی رہی ، ہاں اتنا یاد ہے کہ عربی سوم وچہارم میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ، ان کے معیار سے کافی بلند بعض کتابیں تھیں ، مثلاً حدیث میں مؤطاامام محمد اور آثار السنن !
شعبان میں سالانہ تعطیل ہوئی اور میں گھر آگیا، تو خیال آیا کہ اس تعطیل میں کچھ کتابیں کسی استاذ عالم سے پڑھ لینی چاہئے ، تاکہ امتحان کے وقت بالکل اندھیرا نہ رہے ، تعطیلات میں اساتذہ سمٹ کر گھر آجاتے ہیں ، میرے قریبی گاؤں خیرآباد میں مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی سے مجھے مناسبت تھی ، اس وقت وہ مرادآباد کے مدرسہ حیات العلوم میں استاذ اور مفتی تھے اور اس کے چندے کے لئے ہمارے گھر اور گاؤں میں آیا کرتے تھے ، یہاں چند در چند قرابتیں بھی تھیں ، اس لئے گاؤں والوں سے اور خصوصیت سے والد صاحب سے گہرا تعلق تھا ۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ مؤطا امام محمد کے اسباق پڑھادیجئے ، انھوں نے قبول کیا ، میں ان کے گھر جاکر پڑھنے لگا۔ چند روز یہ اسباق پڑھے ہوں گے کہ ان کے مشاغل اور اپنی کاہلی کی وجہ سے یہ سلسلہ رک گیا ، لیکن میں نے اپنی عادت کے مطابق پوری کتاب کا مطالعہ کرڈالا ، آثار السنن کے بارے میں یاد نہیں آتا کہ وہ ملی یا نہیں ؟
عربی چہارم کی تعلیم ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ شروع ہوئی تھی ۔ میں بھول گیا تھا کہ اس سال ’’ مولوی ‘‘ کاامتحان ہونے والا ہے ، تعلیمی یکسوئی اور مطالعہ ومذاکرہ کا انہماک چل رہاتھا کہ ایک روز چرچا ہوا کہ قاری انوار الحق صاحب بنارس سے کوئی پیغام لے کر آئے ہیں ، میں سہم گیا ۔ معلوم ہو اکہ فارم بھرنے والوں کی حاضری بنارس میں ہونی ہے ، الہ آباد بورڈ کی جانب سے مدرسہ کے بارے میں تحقیقات ہوں گی کہ یہاں طلبہ ہیں یا نہیں ؟ ایک ہفتہ کے لئے ہم لوگوں کو بنارس جانا ہے ، ساتھی بہت خوش ہوئے کہ اس بہانے بنارس کی سیر ہوگی ، ابھی تک کوئی بڑا شہر دیکھا نہ تھا ، مبارک پور شہر نہ تھا ایک قصبہ تھا ، مگر مجھے سیر وتفریح سے کوئی مناسبت نہ تھی ، اس لئے وحشت ہوئی مگر چار وناچار جانا ہی تھا ۔