عرصہ تک پڑھتارہا۔ اسی سال ’’الجمعیۃ ‘‘کا جمعہ ایڈیشن وحید الدین خان کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا، ہر سنیچر کو مبارک پور مولانا نجم الدین احیائی(۱) مرحوم کے مکتبہ الہلال پر آجاتا تھا، میں اسے پابندی سے خریدتا تھا ، اس کا انتظار ہفتہ بھر رہتا ، اس رسالہ سے بڑا حوصلہ ملتا تھا۔
عربی لغات کی جوکتابیں مجھ جیسے طالب علم کو مل سکتی تھیں ،سب جمع کرلی تھیں ، المنجد ، القاموس المحیط،مصباح اللغات، بیان اللسان از قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی ،القاموس الجدید عربی سے اردو اوراردوسے عربی، لغات جدیدہ از سید سلیمان ندوی،یہ سب کتابیں ہمہ وقت میرے مطالعہ میں رہتیں ۔
درسیات کے سلسلے میں پروگرام یہ بنایاتھاکہ ہر کتاب مطالعہ کرکے پڑھنی ہے اساتذہ سے سناتھا کہ عربی چہارم تک استعداد بننے کا وقت ہے ،اگر اس جماعت تک استعداد بن گئی تو آگے ترقی ہوتی رہے گی اوراگر نہ بن سکی تو آگے طالب علم گرتا ہی چلاجائے گا اس کے پیش نظر دل میں یہ بات جمی تھی کہ ہرکتاب ازخود مطالعہ میں حل کرکے درسگاہ میں حاضر ہوناہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی پختہ عزم تھاکہ ابتدائے سال سے تکرار ومذاکرہ کی پابندی کرنی ہے چنانچہ اس پر عمل شروع کردیاگیا، یہ کل تین منصوبے تھے عربی تحریر کی مشق وتمرین ،درس
------------------------------(۱) یادش بخیر! مولانا نجم الدین صاحب احیائی ، میرے استاذ حضرت مولانا محمد مسلم صاحب علیہ الرحمہ کے گاؤں بمہور کے رہنے والے تھے ، اسی سال انھوں نے مبارک پور میں ہلال بکڈپو کے نام سے اپنا تجارتی مکتبہ جاری کیا تھا، سانولے رنگ کے دبلے پتلے منحنی آدمی تھے ، مگر صلاحیت اور جوش عمل سے معمورتھے ۔ انھوں نے صرف تجارتی مکتبہ نہیں کھولا، بلکہ تصنیف وتالیف کا ایک مرکز بھی قائم کیا تھا ، خود صاحب ذوق تھے ،اور مدرسہ کے طلبہ کو لکھنے پڑھنے کی ترغیب دیتے اور مضمون نگاری سکھاتے ، متعدد نوجوانوں نے ان کی تربیت میں قلم پکڑنا سیکھا۔ بہت نفیس انسان تھے ، انھوں نے مشہور بریلوی خطیب مولوی ارشد القادری کی طوفان خیز اور بدترین بہتان پر مشتمل کتاب ‘‘زلزلہ’’ کا جواب ‘‘ زلزلہ در زلزلہ’’ کے نام سے لکھا ہے ، جس نے زلزلہ کی ہوا اکھاڑ دی، کم عمری ہی میں ۱۹؍شعبان ۱۴۰۴ھ مطابق ۱۰؍مئی ۱۹۸۵ء بروز جمعہ ان کا انتقال ہوگیا، رحمہ اﷲ۔ زلزلہ کے علاوہ متعدد تصانیف ان کی یاد گار ہیں ۔