بہرحال حالات میں مدوجزر آتارہا، اورامتحان کا وقت قریب آتارہا،اس اخیر وقت میں غیر معمولی محنت کرنی پڑی،اندیشہ تھا کہ خدانخواستہ اگر کسی کتاب میں ناکام ہوگیا ،یانمبر کم آئے تو بہت بے عزتی ہوگی، محنت بھی کرتارہا ، حماقتوں سے توبہ بھی کرتارہا دعائیں بھی بہت کیں اس وقت احیاء العلوم میں عربی سوم کی کتابوں کا امتحان تقریری ہواکرتاتھا، صرف ترجمہ کلام پاک اور شرح تہذیب کا امتحان تحریری ہوتاتھا،آج جب یہ سطریں لکھ رہاہوں اس واقعہ پر چالیس سال سے زیادہ بیت چکے ہیں ،یاد نہیں کہ قدوری کاامتحان کس نے لیا، لیکن خوب یاد ہے کہ کافیہ اورالقرأۃلرشیدہ کاامتحان حضرت مولانا افتخار احمد صاحب علیہ الرحمہ نے لیاتھاجو اس وقت دارالعلوم مئو میں استاذ تھے،مولانا کے سامنے القرأ ۃ الرشیدہ لے کر بیٹھا انھوں نے نہ کہیں سے عبارت پڑھوائی، نہ ترجمہ پوچھا ، صرف مفردات پوچھتے رہے ، معانی بھی ،صرفی ونحوی تحقیق بھی، اوراس تیزی سے پوچھتے رہے کہ دم لینے کی مہلت نہ ملتی تھی، لیکن اخیر کی محنت اوراللہ کی مہربانی تھی کہ میں کہیں رکا نہیں ،ادھرسے سوال ہوتا اور معاً ادھر سے جواب ہوتا، میں نہیں کہہ سکتاکہ میرے جواب میں کتنی غلطی رہی ہوگی ،لیکن میرا اندازہ ہے کہ سو کے قریب ان کے سوال رہے ہوں گے انھوں نے نمبر پورادیا۔
دوسرے وقت میں کافیہ کا امتحان تھا انھو ں نے’’ تو ابع‘‘ کی پوری بحث پڑھوائی اورپھر مطلب پوچھا میں نے شروع سے آخر تک پوری تقریر کردی دیر تو بہت لگی مگر بہت خوش ہوئے اورپورانمبر اس میں بھی دیا۔
مولانا مرحوم نے اس امتحان کو تازندگی یادرکھا اورعام مجمعوں میں بے تکلف فرمادیا کرتے تھے کہ میں انھیں طالب علمی کے زمانے سے جانتاہوں ان پر پورا عتماد ہے ،اخیر تک مولانا نے بہت محبت فرمائی، مرض الموت میں کئی بار حاضری ہوئی، صبر وشکر کے پیکر تھے، پہلی مرتبہ حاضری ہوئی تو فرمانے لگے کہ آج مجھے بہت خوشی ہے میں نے گھر والوں سے کہہ دیاتھا کہ آج بہت بڑے عالم آرہے ہیں ان کا خاص اہتمام کرو۔
دوکتابوں کا تحریری امتحان ہوا ترجمہ کلام پاک سے مجھے بہت مناسبت تھی اس کا پرچہ