کی مسجد کہلاتی تھی مگر اس میں نمازباجماعت کا انتظام واہتمام نہ تھا اورمشہور تھا کہ اس میں جن بہت رہتے ہیں ہلکی گرمی کا موسم تھا، میں اکیلا تھا کتاب دیکھنے لگا مگر دماغ کا اب بھی وہی حال تھا میں نے جھنجھلا کرکتاب رکھ دی ،اورلیٹ گیا،تھوڑی دیر میں نیندآگئی جیسے نیند آئی، خواب میں دیکھتاہوں کہ ایک بزرگ سفید ریش خوبصورت عمامہ باندھ کر تشریف لائے دل میں یہ بات جمی کہ یہ صاحب کا فیہ علامہ ابن حاجب ہیں ، مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اب ان سے یہ بحث براہ راست پڑھوں گا ،خواب میں یہ خبر کہاں کہ یہ خواب ہے وہ توآنکھ کھلنے پر کھلتا ہے کہ یہ خواب تھا۔ انھوں نے آتے ہی فرمایاکہ کون سا مسئلہ تمھیں سمجھ میں نہیں آتا میں نے کتاب کھول کرحال کی بحث سامنے رکھ دی انھوں نے اس کی نہایت واضح اورمفصل تقریر کی، پورامسئلہ ذہن نشین ہوگیا اتنی خوشی ہوئی کہ میں اسے بیان نہیں کرسکتا، دوخوشی، ایک تو مسئلہ حل ہونے کی، اوردوسری صاحب کافیہ کی شاگردی کی ! وہ صاحب تو سمجھا کر چلے گئے ، اورخوشی کی بیتابی میں میری آنکھ کھل گئی، اب سمجھ میں آیاکہ میں جو کچھ دیکھ رہاتھا وہ خواب کا معاملہ تھا میں نے جھٹ کتاب کھولی مگر اتنی دیر میں ان کی پوری تقریر فراموش ہوچکی تھی،کچھ یاد نہیں آیا، اب میرے اوپر جانکنی جیسی کیفیت طاری تھی ابھی خو ش تھا مگر وہ خواب کی خوشی تھی،اس کے ایک لمحے کے بعد کربناک اذیت میں مبتلاتھا ،جیسے جان نکل رہی ہو،یہ بیداری کی تکلیف تھی مجھے اپنے اوپر غصہ آرہاتھا ،مایوسی ہورہی تھی میں نے کتاب اٹھائی ، اورجامع مسجد میں آگیا، ظہر کی اذان ہوچکی تھی اسی اذیت میں نماز اداکی ،طلبہ سب موجود تھے، اکٹھاہوکر بیٹھ گئے، میں بھی مردہ جیسی حالت میں ان کے درمیان بیٹھ گیا ،چہرے پر ہوائی اڑرہی تھی، میں کہنا چاہ رہاتھا کہ آج کچھ حل نہیں ہوسکااس لئے تکرار موقوف! مگر جونہی کتاب کھولی ،اورایک نگاہ متعلقہ مسئلہ پرڈالی ، اچانک محسوس ہواکہ سب کچھ دماغ میں موجودہے، پھرتو اس کو میں نے اس طرح سمجھایاکہ جیسے کوئی کہنہ مشق استاذ پڑھاتا ہو ،طلبہ حیران تھے کہ آج جیساتکرار پہلے نہیں ہواتھا، میں نے اس وقت بعض مصلحتوں سے اسے ظاہر نہیں کیا لیکن آج بھی یہ واقعہ میرے سامنے اس طرح تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو۔