سے طلبہ بن بھی جاتے تھے اور بعض بگڑ بھی جاتے تھے ،مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا ،اورجوبھی مل جائے اسے پڑھنے کا جنون تھا اس مرحلے میں چند غلط قسم کی صحبتوں کا شکارہوا،اس سے بہت نقصان ہوا یہ غلط صحبتیں پڑھنے کے شوق ہی کی راہ سے آئیں ۔
اس کی تفصیل بقدر ضرورت یہ ہے کہ مدرسہ کے طلبہ کی مشق تقریرکیلئے انجمن بنام جمعیۃ الطلبہ قائم تھی،اس کی ایک اپنی لائبریری بھی تھی، کتابوں کا شوق مجھے اس لائبریری تک لے گیا،سال کے شروع میں انجمن کے ناظم وصدر کا انتخاب ہوتا،انتخاب کا یہ عمل طلبہ میں اختلاف اورجھگڑے کا ذریعہ بنتاتھا، چنانچہ عربی سوم کے سال اس اختلاف نے ایک سنگین صورت اختیارکرلی اور اس کا نتیجہ یہ ہواکہ مدرسہ سے ۱۳؍طلبہ کا اخراج ہوگیا ،جوصاحب انجمن کی نظامت کے عہدے پر پچھلے سال سے فائزتھے،وہ ناظم صاحب کے خادم خاص تھے،ان کے جو لوگ مخالف تھے ان کااخراج ہوگیا ،میں ناتجربہ کاراوربے وقوف لڑکاتھا، اختلاف کے جال میں میں بھی پھنسا،مجھے لائبریری کا ناظم بنادیاگیا، میں خوش تھاکہ لائبریری کی ساری کتابیں میرے تصرف میں ہیں ،خوب جی بھر کر پڑھوں گا،اورپڑھابھی میں نے خوب ،لیکن اس کے علاوہ اورجو کچھ مجھے بھگتنا پڑاوہ ناگفتنی ہے، اس کی کچھ جھلکیاں آئندہ آئیں گی۔
اس دور میں مجھے عربی سے زیادہ اردوکتابیں پڑھنے کاشوق تھا ،نثر تو خوب پڑھ لیتا اورسمجھ لیتا مگر شاعری کے سمجھنے میں کوراتھا ،اشعار بالخصوص غزل کے اشعار میرے پلے نہ پڑتے تھے، اس وقت مدرسہ میں ایک طالب علم تھا جس کو اردو کے ہزاروں اشعار یاد تھے اوروہ سمجھتابھی خوب تھا میری حرص اس کے پاس مجھے لے گئی ،میں نے درخواست کی کہ غالبؔ اورمومنؔ کے اشعار مجھے سمجھادے ، اس نے قبول کرلیا، لیکن ساتھ ہی مشورہ دیاکہ تم ’’ادیب‘‘ کے امتحان کے لئے فارم بھردو،نثرمیں تمھیں کچھ محنت نہیں کرنی ہے ،نظم میں پڑھا دوں گا، کچھ فلاں صاحب سے پڑھ لینا ،وہ باقاعدہ کلاس کے تحت اسے پڑھاتے ہیں ،مجھے تو پڑھنے کا جنون تھا ،میں نے بے تامل ان کی بات مان لی، ادیب کا فارم بھرنے کیلئے فوٹو کی ضرورت تھی ،میری طبیعت فوٹوسے ہچکچائی ،فوٹوتوجائزنہیں ہے،اس طالب علم نے مجھے سمجھایااورمیں