میں انھیں غور سے دیکھتا،اورجتنا زیادہ دیکھتا، ان کے حسن وجمال میں اضافہ ہوتا رہتا،کبھی کبھی گھنٹوں اسی میں محو رہتا اوراتنی دیر کیلئے اپنا اضطراب بھول جاتا۔
اس اضطراب کا ایک اثر یہ بھی تھا کہ میں ہر جمعرات کو علم الصیغہ کے گھنٹے کے بعد گھرکیلئے روانہ ہوجاتا، احیاء العلوم میں جمعرات کو بھی دونوں وقت تعلیم ہوتی تھی، مبارک پور سے بھیرہ نو کیلومیٹر پر ہے ،اس وقت وہ سڑک بہت خراب تھی اس پر سواریوں کا کوئی خاص نظم نہ تھا، کبھی کبھی یکے دکھائی دیتے تھے، اکا دکا رکشہ بھی نظر آجاتا تھا میرا سفر زیادہ تر پیدل ہی ہواکرتا، گاؤں کے قریب آکرٹونس ندی کو بھی پار کرنا ہوتا، کشتی رہاکرتی تھی ،ہر جمعرات کو گھر آجاتا، اورجمعہ کا دن گزارکرسنیچر کو اس طرح گھر سے نکلتاکہ کبریٰ کے سبق تک مدرسہ پہونچ جاؤں ، کبریٰ کا سبق چھوڑنا نہیں چاہتاتھا۔
غالباً ششماہی امتحان کے بعد میری طبیعت خراب ہوئی ،ابتداء ً میری سمجھ میں نہیں آیاکہ کیاہوا، چلتاپھرتاتھا مگر ٹانگوں میں اورجسم میں کمزوری محسوس ہوتی تھی ،قاری صاحب کی درسگاہ پہلی منزل پرتھی، اوراس کی مشرقی کھڑکی مطبخ کی جانب کھلتی تھی وہاں مسالہ بھوناجاتا، یاگوشت پکایاجاتا، تومجھے بڑی اذیت محسوس ہوتی ،جمعرات کو بدقت تمام گھر گیا،والد صاحب سے اس کا ذکرکیاانھوں نے حکیم بشیرالدین صاحب مرحوم کو دکھایاوہ گھبرا گئے ،مجھے ان کا لفظ یادہے انھوں نے کہا ارے! اس کو تو ’’یرقان اسود‘‘ہوگیاہے ،ان کا علاج شروع ہوا دوتین ہفتوں تک بلکہ پورے ماہ تک مدرسہ نہیں جاسکا،ایک ماہ کے بعد مدرسہ گیا توراستے بھر روتا ہواگیا، پھر کچھ دنوں کے بعد گھر آیا تو دادا جان کی طبیعت بہت خراب تھی ،ان کی شدت علالت کی وجہ سے رک گیا اوران کا ایک ہفتہ کے بعد انتقال ہوگیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
اس طرح پڑھائی کا اچھا خاصا نقصان ہوگیا مگر اخیر سال میں محنت کرکے سب کی تلافی کرلی، امتحان میں الحمدللہ کامیابی ہوئی۔
تعلیم باقاعدہ شروع ہوجانے کے بعد مطالعہ کا مشغلہ پھر جاری ہوگیا لیکن پہلے کی