ہوتی رہی ، بالآخر کثرت رائے سے حافظ توفیق احمد صاحب صدر اورمولوی فیاض احمد صاحب ناظم منتخب ہوئے ،اورمولوی عبدالمعید صاحب ناظم کتب خانہ !
اس انتخاب کے بعد جمعیۃ الطلبہ کا نظام بظاہر درست ہوگیا، مگر اختلاف کی خلیج اندراندر وسیع ہوتی رہی، اس اختلاف کا اثر کبھی کبھی ظاہر ہوتاتھا مگر جب اساتذہ اچھے ہوں اورتعلیم کا نظم عمدگی کے ساتھ چل رہاہو،تویہ اختلافات زیادہ اثرانداز نہیں ہوتے ۔ناظم صاحب اورمولانا محمدمسلم صاحب کی حکمت عملی اوررعب وہیبت کی وجہ سے معاملہ دبارہا، مگرختم نہ ہوا۔
اخیر سال میں طلبہ اپنی انجمن کا سالانہ جلسہ کرتے ،جس کی صدارت کے لئے کسی نامورعالم کو دعوت دیتے ،پچھلے سال انجمن کاجلسہ بہت اہتمام کے ساتھ منعقد ہواتھا، اس میں دیوبند سے مولانا انظرشاہ کشمیری کو دعوت دی گئی تھی ، اس وقت ان کی تقریر کا بہت شہرہ ہواتھا،میں اس سال گھر پر تھا جلسہ میں جانے کا ارادہ تھامگر کسی وجہ سے نہ جاسکا تھا ، اس سال اس سے چھوٹے پیمانے پر جلسہ کرنے کا فیصلہ ہوا، مولاناقاری فیاض احمد صاحب ناظم مدرسہ مخزن العلوم دلدار نگر غازیپور کو دعوت دی گئی ، مختصر پیمانے پر اچھا جلسہ ہوا۔
میں کبھی اب تک گھر سے باہررہا نہیں تھا ،اب جو مسلسل باہررہنا پڑا اور اس میں بھی جاگیر کا لاحقہ میرے ساتھ لگ گیا، اس سے میری طبیعت بہت گھبرائی تھی ،شروع کے چھ ماہ تو یہ کیفیت رہی ، علاوہ سبق کے اوقات کے کسی وقت جی نہیں لگتاتھا،یہ بھی نہ تھاکہ گھر چلے جانے کی طبیعت چاہتی ہو ،بس ایک اضطراب سا رہتا،باربار دل بھر آتاتھا،طلبہ کے سامنے تو کسی طرح خود کو قابو میں رکھتا،مگر جونہی تنہائی ہوتی وہ اضطراب آنکھوں کے راستے ٹپکنے لگتا ،زیادہ اضطراب بڑھتا تو جامع مسجد کے اندرونی حصے میں دروازوں کو بند کرکے پڑارہتا، اور خوب جی کھول کر روتا اپنے اس اضطراب کو کسی سے کہہ بھی نہیں سکتاتھا کہ شرم آتی تھی ،کوئی اورپناہ گاہ تو ملتی نہ تھی، بس اللہ کا گھر میرامونس ودمساز ہوتا، مبارک پور کی جامع مسجد میں جتنے خوبصورت سبک اورمرصع نقش ونگار ہیں ،میں نے ایسے نقش ونگار کہیں اور نہیں دیکھے ،