فائق تھا میں اس کا پاسنگ بھی نہ تھا،لیکن میرا مطالعہ اس کے مقابلے میں بہت وسیع تھا ،میں نے اس کی تنبیہات سے اختلاف کیا،میں نے کہاکہ اردو میں الفاظ اگر چہ عربی وفارسی اور دوسری زبانوں سے آئے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ اردومیں منتقل ہوکر بھی ان کا تلفظ وہی رہے جواصل عربی اورفارسی میں تھا، اردوکے اہل زبان نے ان میں تصرفات کئے ہیں ۔ اور یہ تصرفات مقبول ہیں ،چنانچہ ایک لفظ عربی میں کچھ معنی رکھتاہے اردو میں اس کا معنی دوسرا ہوجاتاہے، اسی طرح ممکن ہے عربی میں تلفظ کچھ ہو اہل زبان نے اردومیں اس کا تلفظ دوسرے طورپر کیاہو،عربی میں افراط وتفریط ہے اردو والوں نے اسے لیاتو افراتفری کردیا، صرف ط کو حذف ہی نہیں کیا بلکہ الف کو زبر بھی دے دیاہے۔اس سلسلے میں مولاناسید سلیمان ندوی علیہ الرحمۃ نے’’ نقو ش سلیمانی ‘‘میں کافی بحث کی ہے، مدرسہ کے کتب خانہ میں یہ کتاب نہ تھی میں نے کہیں اورسے لاکر اس کو بطور سند کے پیش کیا، اس کے بعد غلو مدھم پڑگیا۔
دوگروپ میں منقسم ہوکر طلبہ جلسہ کرتے تھے اس کا قاعدہ یہ تھاکہ جو جلسہ پہلے ختم ہوجاتا، اس کے شرکاء اٹھ کر دوسرے جلسہ میں شریک ہوجاتے ،باہمی چشمک نے اس قاعدہ کو بگاڑ رکھا تھا، ہرگروپ چاہتاتھا کہ اس کے گروپ میں دوسرے گروپ والاشریک ہو، اس کشمکش میں جلسہ دیر تک چلتارہتا نہ اس گروپ کی تقریریں ختم ہوتیں اورنہ اس گروپ کی، چشمک تو صرف دوایک طالب علموں میں ہوتی ،مگر وہ اپنے ساتھ پوری جماعت کو مبتلا کردیتے۔
جمعیۃ الطلباء کے نظم کو چلانے کیلئے انتخاب کا طریقہ رائج تھا، یعنی طلبہ میں پانچ عہدے متعین تھے،ان کیلئے انتخابی کارروائی ہوتی تھی،صدر،نائب صدر،ناظم،نائب ناظم، ناظم کتب خانہ ،جمعیۃ الطلبہ کا ایک مستقل دستورالعمل تھا ، اس میں ان عہدوں کی تفصیلات ،ان کی ذمہ داریاں اور ان کے اختیارات تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے تھے ،انھیں کے مطابق عمل درآمد تھا،میں جس سال پہونچا انتخاب میں بڑے جھگڑے پیداہوگئے تھے، طلبہ باقاعدہ دوگروپ میں منقسم ہوگئے تھے ،انتخاب میں سخت اختلاف ہوا،کئی دن تک انتخابی کارروائی