چھوڑ دیا، ترکیبوں پرخوب قابو ہوگیا ،شرح مأۃ کے سبق سے فارغ ہو تا تو مسجد جاتا۔
مدرسہ کے طلبہ کی بہت پہلے حضرت مولانا شکراللہ صاحب علیہ الرحمہ کے دور میں ایک انجمن ’’جمعیۃ الطلبہ‘‘ کے نام سے تھی۔پھر نہ جانے اس کا نظام کب بکھر گیا، مولانا محمد مسلم صاحب استاذہوکر تشریف لائے تو اس کی تجدید ہوئی ،مولانا ہی اس کے سرپرست تھے ،مولانانے اس کا نظام اس طرح بنایاکہ عربی وفارسی درجات کے طلبہ جمعرات کو بعد نمازعشاء انجمن کاجلسہ کریں گے، اس میں ہر طالب علم کو لازم ہوگاکہ کچھ نہ کچھ تقریرکرے، ہرجلسہ کاایک صدرہوگا جس کی ذمہ داری ہوگی کہ طلبہ کی تقریروں پر رجسٹر کارروائی میں تبصرہ لکھے ، ان کی غلطیوں کی نشان دہی کرے ان کو صحیح مشورے دے ، کوئی طالب علم بغیر اجازت اس سے غیرحاضر نہ ہو، اور مسلسل دوہفتہ رخصت نہیں ملے گی، ان جلسوں سے طلبہ کو زبان وبیان کا بہت فائدہ ہوتا،تذکیروتانیث کی غلطیاں معلوم ہوتیں ،الفاظ کا صحیح تلفظ کرنا آجاتا، نحوی غلطیوں سے بچنے کا سلیقہ آجاتا ،بعض طلبہ اس سلسلے میں بہت خوردہ گیر تھے، ان کی موجودگی میں کسی لفظ کا غلط استعمال یاغلط تلفظ اگرہوجاتا تواسے فوراً نوٹ کرتے اورتقریر ختم ہوتے ہی اس پر تنبیہ کرتے ،مثلاً عربی زبان میں لفظ حرکت، راء کے زبر کے ساتھ ہے، اردو میں عموماًلوگ حرکت راکے سکون کے ساتھ بولتے ہیں ، یہ غلطی بھی نوٹ کی جاتی ۔عربی زبان میں مقصد صاد کے زیر کے ساتھ ہے، اردومیں اس کا تلفظ مقصد کیاجاتاہے صاد کے زبر کے ساتھ، یہ غلطی بھی برداشت نہ تھی ، میرے خیال میں یہ غلو تھا، اسی طرح حروف کے مخارج میں غلطی ہوتی تو اس پر بھی ٹوکا جاتا،پہلے سال تو میں کچھ محجوب محجوب ساتھا،ان جلسوں میں میری حاضری بھی بہت کم ہوئی، اس کی تفصیل آگے آرہی ہے ،لیکن دوسرے سال سے میری حاضری مستقل ہوگئی تھی مجھے اس غلو سے اختلاف ہوا ،اتفاق دیکھئے کہ جس طالب علم کو اصلاحات کا یہ غلو تھا وہ میراہم سبق تھا ،اورذہین وفطین تھامجھ سے اس کی چشمک ہوگئی ،پہلے تو چشمک رہی اس کے بعد طبیعتوں میں حسد پیداہوگیا،حسد اسے بھی تھا اورمجھے بھی ! وہ میری بات کو ناپسند کرتا میں اس کی بات کو ! پہلے اوردوسرے سال تقریرکرنے میں وہ مجھ سے بہت