شمس الدین صاحب جو اس وقت نائب ناظم تھے،اٹھانے آجاتے ،غرض فجر کی نماز میں طلبہ تقریباًسبھی شریک ہوجاتے ، نمازکے بعد تلاوت کی جاتی جن کو نیند زیادہ ستاتی ،وہ سوجاتے ورنہ پڑھتے رہتے ،میں اگلے سبق کا مطالعہ کرتاتھا، ناشتہ کا انتظام مدرسہ کی طرف سے نہیں تھا ،اطراف کے طلبہ گھروں سے کچھ لاتے تھے وہی کھالیتے ورنہ ایک دوہوٹل تھے ، پانچ نئے پیسے کی چائے، اوراتنے ہی کی چند میٹھی پکوڑیاں ملتی تھیں ، انھیں کھالیتے تھے ورنہ اس کی بھی ضرورت نہ تھی ۔گھنٹہ ہوتا اورسبق میں لگ جاتے ، چار گھنٹوں کے بعد وقفہ ہوتا ، اوربلاتاخیر جاگیروالے جاگیر پر چلے جاتے، میں وہاں سے لوٹتا تو میرا ایک ساتھی جو پڑھنے میں کمزورتھااوربالکل خاموش رہاکرتاتھا، مولوی محمد طیب نیپالی !میرے کمرے میں آجاتا، ظہر کے بعد والے گھنٹے میں علم الصیغہ کا سبق تھا، وہ عبارت پر انگلی بڑھاتا جاتا،میں اس کا ترجمہ کرتاجاتا، دوتین مرتبہ میں ترجمہ کردیتا،کرادیتا، وہ چلاجاتا، میں بھی کتاب اٹھاکر جامع مسجد چلاجاتا،جو مدرسہ سے قریب ہی ہے ،کچھ دیر بیٹھ کر علم الصیغہ یاد کرتا، جب ایک گھنٹہ ظہر کی اذان میں باقی رہتاتومیں سوجاتا، بعد نماز ظہر دوایک مرتبہ سبق دہرالیتا، اس طرح سبق خوب پختہ ہوجاتا۔
اسباق شروع ہونے کے بعد میں نے ناظم صاحب سے شرح مأۃ عامل کاتذکرہ پھر کیا،ناظم صاحب نے فرمایاکہ میں نے مولوی عبدالکافی سے کہدیاہے ،وہ تمھیں پڑھادیں گے،میں مولوی صاحب سے ملا،انھوں نے فرمایا کہ جب تم دوپہر کا کھاناکھاکر آتے ہو ،اسی وقت پڑھادوں گا، میں کھاناکرآتا، تو اسی وقت مولوی محمدطیب آجاتے،ان کے ساتھ پانچ دس منٹ صرف ہوتے ،اس کے بعد مولوی عبدالکافی صاحب آجاتے ،میں ان سے کہتا کہ میں آپ کی خدمت میں حاضرہوجایا کروں ، وہ فرماتے کہ نہیں میں تمھارے کمرے میں آجایاکرتاہوں ،یہی ٹھیک ہے، میں شرح مأۃ عامل کا مطالعہ محنت سے کرتا، انھیں بتانے کی ضرورت کم پیش آتی تھی ،چونکہ قدرے بے تکلفی ہوگئی تھی، اس لئے ان کی بتائی ترکیبوں پر ردوکد بھی کرتا ،یہ سلسلہ ششماہی امتحان تک ناغوں کے ساتھ چلتارہا ،نوع عاشر تک پڑھ کر