جر میں ہے،مادہ اس کا ص۔ف۔و ہے، فاء کلمہ کے صاد ہونے کی وجہ سے تاء افتعال طا سے بدل گئی ہے، اس کی اصل مصطفوین ہے، واؤ چوتھی جگہ پر ہے اس لئے اس کو یاء سے بدل دیا،پھر یا متحرک اس کے ماقبل مفتوح ، اسے الف سے بدل کر اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرادیا، جو ناز ہوگیا تھا وہ ٹوٹ گیا۔
جامعہ عربیہ احیاء العلوم کا وہ دورتعلیم وتدریس کے اعتبار سے ایک بہترین دور تھا ، اساتذہ سب باکمال تھے،طلبہ بھی اچھے تھے اساتذہ میں استاذ العلماء حضرت مولانا مفتی محمد یٰسین صاحب علیہ الرحمۃ ،مولانا محمد یحییٰ صاحب علیہ الرحمہ،مولانا زین العابدین صاحب مدظلہ ، مولانا عبدالمنان صاحب رحمۃ اﷲ علیہ، مولانا محمدمسلم صاحب علیہ الرحمہ، مولانا جمیل احمد صاحب مدظلہ تھے یہ سب چندے آفتاب چندے ماہتاب تھے، مدرسہ کے ماحول میں فی الجملہ آزادی تھی ،نگرانی وغیرہ کا زیادہ اہتمام نہ تھا، لیکن اساتذہ نے طلبہ میں اتنا ذوق پیداکردیاتھا کہ وہ خود بخود پڑھنے لکھنے میں لگے رہتے تھے۔
نمازمغرب کے بعد فوراً کھاناتقسیم ہوتاتھا ،جاگیر والے اپنی جاگیروں پر چلے جاتے تھے، کھانے سے فراغت کے بعد طلبہ کتابیں لیکر بیٹھ جاتے تکرار ہوتا، سبق یادکیاجاتا،عشاء کی نمازکے بعد پھر پڑھنے بیٹھ جاتے اورحسب ضرورت ۱۱؍۱۲؍ بجے رات تک پڑھتے، میں عشاء کے بعد کچھ دیر حضرت مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ کی خدمت میں جابیٹھتا، مولانا کی باتوں میں بڑالطف آتا، کچھ دیر وہ تعلیم کی ،تربیت کی اوردوسر ے موضوعات پر باتیں کرتے ،پھر وہ اپنے مطالعہ میں لگ جاتے اور ہم لوگ اپنی کتابوں میں ،وہاں سے جب اٹھتے ایک حوصلہ لے کر اٹھتے، میں درسی کتابوں سے جلد فارغ ہوجاتا، پھر دوسری کتابیں دیکھنے میں لگ جاتا اورعموماً بارہ ایک بجے تک جاگتا، ایک بجے کے بعد ہی سونے کی نوبت آتی۔
صبح فجر کی نمازکیلئے طلبہ کو اٹھانے کازیادہ اہتمام نہ تھااسی لئے بعض کاہل پڑے ہی رہ جاتے ، مگر عام طورسے لڑکے اٹھ جاتے تھے، اکثر مولانا محمدمسلم صاحب ایک آواز لگاتے ، ان کی آواز میں اعجاز مسیحائی تھا،جہاں تک آوا ز پہونچتی طلبہ اٹھتے چلے جاتے، کبھی کبھی مولانا