اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کی طرف سے خبریں دیتے ہیں، پس رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ بولنے والا اللہ پر جھوٹ بول رہا ہے، اورقرآن کریم میں اللہ تعالی پر جھوٹ بولنے والے پر بہت سخت نکیر کی گئی ہے، اللہ کا فرمان ہے:
{فمن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او کذب بأیتہ}
’’اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے، یا ان کی آتیوں کو جھٹلائے‘‘
اس آیت میں جھوٹ باندھنے والے کو اللہ تعالی نے کافر کے برابر کردیا،
{ویوم القیمۃ تری الذین کذبوا علی اللہ وجوھھم مسودۃ}
’’اور آپ قیامت کے دن ان لوگوں کے چہرے سیاہ دیکھیںگے جنہوں نے اللہ پر جھوٹ بولا تھا‘‘
اور اس کے متعلق اور بھی متعدد آیات موجود ہیں۔
اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ کذب علی الرسول کا نتیجہ بہت برا ہے، اس لئے کہ دین کی حفاظت کے لئے یہی ایک روایت کا راستہ کھلا ہوا ہے ،اسی سے دین کی بقا ممکن ہے، صحیح روایت کے بغیر دین حاصل کرنے کا اور اس کو باقی رکھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، پس اگر روایت میں ہی کذب بیانی شروع ہوگئی اور دین کے نام پر جھوٹی روایتیں پھیلنے لگیں تو دین کیسے محفوظ رہے گا، شیخ الحدیث حضرت مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم ’’رحمۃ اللہ الواسعہ‘‘ میں شاہ صاحبؒ کی عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
حدیث میں کذب بیانی کبیرہ گناہ ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ بعد کی صدیوں تک