بن عمار سے سنا ہے ، حافظ ابن حبانؒ نے اس سے پوچھا کہ تم کب شام میں داخل ہوئے تھے؟ تو اس نے کہا کہ ۲۵۰ھ میں ، اس پر حافظ ابن حبانؒ نے فرمایا کہ ہشام جن سے تم روایت کرتے ہو ان کا انتقال ۲۴۵ھ میں ہو چکا ہے ، اسی طرح عبد اللہ بن اسحاق کرمانی نے محمد بن ابی یعقوب سے حدیث روایت کی، حافظ ابو علی نیشاپوری اس کے پاس آئے اور اس کا سن ولادت معلوم کیا تو اس نے ۲۵۱ھ بتایا ، حافظ ابو علی نیشاپوری نے کہا کہ محمد بن ابی یعقوب تو تمہاری ولادت سے نو سال پہلے وفات پا چکے ہیں، اسی طرح محمد بن حاتم نے عبد بن حمید کے واسطے سے حدیث بیان کی تو حاکم ابو عبد اللہ نے کہا کہ اس شیخ (محمد بن حاتم) نے عبد بن حمید کی وفات کے تیرہ سال بعد ان سے حدیث سنی ہے۔
٭کبھی جھوٹ کا اندازہ راوی کے حال اور اس کے ذاتی رجحانات سے لگایا جا تاہے مثلا:حاکم نے سیف بن عمر تمیمی سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہم لوگ سعد بن طریف کے پاس تھے کہ اس کا لڑکا مکتب سے روتا ہوا آیا تو سعد نے رونے کا سبب دریافت کیا تو اس لڑکے نے بتایا کہ استاذ نے مارا ہے ، اس پر سعد نے کہا کہ آج میں ان لوگوں کو رسوا کروں گا چنانچہ اس نے ایک حدیث بناڈ الی:
حدثنی عکرمۃ عن ابن عباس مرفوعا معلموا صبیانکم شرارکم ، اقلھم رحمۃ للیتیم واغلظھم علی المساکین۔
( اللآلی المصنوعۃ ۲/۴۷۰)
’’مجھ سے عکرمہ نے ابن عباس سے مرفوع حدیث بیان کی کہ تمہارے بچوں کو تعلیم دینے والے تم میں سب سے برے لوگ ہیں، وہ یتیم پر سب سے کم رحم کرنے والے اور