پیرہن رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی} (النجم ۳-۴) جس طرح اللہ تعالی کے کلام میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی یا کوئی تبدیلی گناہ اور سنگین جرم ہے، اسی طرح احادیث میں بھی کوئی اضافہ یا کوئی کمی یا کوئی تبدیلی انتہائی درجہ کی معصیت ہے،کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف ایسی بات منسوب کرنا جو آپ سے ثابت نہ ہو جھوٹ ہے، اور کسی جھوٹی بات کو حضور ﷺ کی طرف منسوب کرنا موجب عقاب ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے: من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار (ترمذی حدیث نمبر ۳۷۱۵۰)۔
جب حضرت عثمان غنی ؓ کے عہد میں فتنوں نے سر ابھارا ،اور اس کے بعد سے نئے نئے فرقوں نے جنم لینا شروع کیا ، تو حدیثیں گھڑنے کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا ، ہر فرقہ اپنی فکر کی تائید میں حدیثیں وضع کرتا ، کوئی سیاسی مقاصد کے لئے احادیث گھڑتا، کوئی حصول زر کے لئے یہ کام کرتا، یہاں تک کہ بعض صوفیاء ترغیب و ترہیب کے لئے بھی وضع حدیث کا ارتکاب کرتے، چنانچہ ضرورت دامن گیر ہوئی کہ احادیث کے قبول و رد کے سلسلہ میں اصول وضع کئے جائیں، اس کے لئے رجال کار تیار ہوئے جنہوں نے تحقیق رجال کا ایسا کارنامہ انجام دیا جو اپنی مثال آپ ہے، اور جرح و تعدیل ایک مستقل فن کی حیثیت سے وجود میں آگیا ، اللہ ان کو جزاء خیر عطاء فرمائے کہ انہوں نے کھرا اور کھوٹا الگ کردکھایا۔
اس وقت دو پہلو قابل افسوس ہے، ایک تو پیشہ ور واعظین ہیں جو اپنی تقریروں میں رنگ بھرنے کے لئے ہر رطب و یابس کو پیش کرتے رہتے ہیں، جن حدیثوں کا موضوع ہونا مسلم ہے ایسی بھی احادیث پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں، اور عوام بھی ایسے مقررین کو