ہے، یہ مشہور کتابوں کے مصنفین ہیں جو امام ابوحنیفہؒ سے ایک صدی بعد میں آئے، اس لئے ان کتابوں کے مصنفین کے پاس حدیث جن راویوں کے واسطے سے پہنچی ہے وہ راوی امام ابوحنیفہؒ کے لئے واسطہ نہیں بنے، بلکہ دو تین ثقہ راویوں کے واسطے سے آپ کی سند رسول اللہ ﷺ تک پہنچ جاتی ہے، اس لئے ایک حدیث امام ابوحنیفہ ؒ کے لئے صحیح ہوتی ہے لیکن وہ ہی روایت بعد میں جاکر سند کے طویل ہونے اور کذب بیانی کے پھیل جانے کی وجہ سے بعض مرتبہ ضعیف ہوجاتی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ امام ابوحنیفہؒ کسی دوسرے محدث کے فیصلے کے پابند نہیں ہے، اور دوسرے اماموں کی ضعیف روایات امام اعظم کے پاس صحیح سند سے پہنچتی ہے اس لئے ان کی ضعیف و موضوع روایات بھی امام اعظم کے نزدیک صحیح ہوتی ہے ۔
دوسری شق کا جواب یہ ہے موضوع احادیث صرف کتب فقہ میں نہیں ہیں بلکہ احادیث کی چند کتابوں کو چھوڑ کر سب کتابوں میں موضوع احادیث موجود ہیں تو کیا ان کتابوں کو بھی ناقابل اعتماد قرار دے دیاجائے گا، نہیں بلکہ جن کا موضوع ہونا ثابت ہوگیا ان کو ترک کرکے باقی کتاب سے فائدہ اٹھایا جائے گا، اسی طرح فقہ کی کتاب کا حال ہے کہ اس کی موضوع روایات کو چھوڑ کر باقی کتاب پر اعتماد کرکے اس سے استفادہ کیا جائے گا۔
یہ تو اس وقت کی بات ہے کہ اس کا موضوع ہونا ثابت ہوجائے ورنہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ فقہائے کرام حدیث کو روایت بالمعنی کرتے ہیں، اس لئے وہ حدیث کا مفہوم ادا