ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ کی کوئی حقیقت یا اس کو کوئی اہمیت ہے جب ہی تو تبریہ کیا گیا ۔ اور میں نے اس پر مثال کے طور پر یہ کہا کہ والد صاحب مرحوم میرٹھ میں ایک رائیس کے ملازم تھے اور جو مکان ریاست سے سکونت کےلئے ملا تھا اس کی پشت پر چمار بستے تھے سو اگر اس جوار کو قرینہ بنا کرکوئی میرے متعلق یوں کہنے لگے کہ یہ تو چمار ہے تو کیا اس وقت یہ مشورہ دیا جاوے گا کہ اس سے تبریہ کرو ۔ ظاہر ہے کہ اس وقت یہ مشورہ ہرگز نہ دیا جاوے گا تو اس میں اور اس میں کیا فرق ہے اس لئے میں یہاں بھی ہر گزر ہرگز اپنا تبریہ نہ کروں گا ۔ مولانا کو بہت محبت اور شفقت تھی فرمایا کہ اچھا تم نہ کہنا میں کہہ دوں میں نے کہا کہ آپ فرما دیں اختیار ہے مگر میں مجلس سے اٹھ کر چلا جاؤں گا میں اس مجلس میں بھی نہ بیٹھوں گا جس میں میرا تبریہ کیا جائے ۔ پھر میں نے کہا کہ آخر اس میں میرا ضرور کیا ہے ۔ فرمایا کہ دوسرں کا تو ضرر ہے وہ بد اعتقاد ہوتے ہیں بد گمان ہوتے ہیں برا بھلا کہنے سے گنہگار ہوتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ دو صورتیں ہیں یا تو ان کے پاس شرعی دلیل نہیں یا شرعی دلیل ہے اگر شرعی دلیل نہیں تو وہ خود اپنے ہاتھوں گناہ میں مبتلا ہوئے تو ہم کو اوروں کے بچانے کی کیا ضرورت اور اگر کوئی شرعی دلیل ہے تو گناہ ہی نہیں پھر ان کو اس سے بچانے کی کیا ضرورت اس پر مولانا خاموش ہو گئے ۔ اس شہرت کی وجہ سے بعض کا خیال تھا کہ اب کی مرتبہ وعظ میں مجمع نہ ہو گا یا کم ہو گا اس لئے کہ بدنامی زیادہ ہو چکی ہے لیکن اور مرتبوں سے زیادہ مجمع ہوا ۔ خود مخالف لوگوں نے یہ سمجھا کہ مسلمان عالم کے وعظ تو بہت سنے ہیں اب کے ایک غیر مسلم کا بھی وعظ سن لیں ۔ پھر وعظ جو ہوا وہ اتفاق سے ایک خاص ترتیب کے لحاظ سے جس کا سلسلہ پہلے سے چلا آرہا تھا اس آیت کا ہوا ، اذ تلقونہ بالسنتکم و تقولون بافواھکم ما لیس لکم بہ علم و تحسبونہ ھینا وھو عنداللہ عظیم سو اس کے ضمن میں بلا قصد اس معاملہ کے متعلق . بھی سب کچھ بیان ہو گیا جس سے مولانا بہت خوش ہوئے ۔ غرض تبریہ ہی میں کیا رکھا ہے اور اسی میں کیا رکھا ہے کہ مخلوق ہمیں اچھا سمجھے انسان کےلئے جو اچھائی کی چیز ہے وہ یہ ہے کہ خداوند جل جلالہ کے ساتھ بندہ کا صحیح تعلق ہو پھر چاہے کوئی خوش رہے یا ناراض عارف کی نظر میں مخلوق کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں جیسے مسجد کے لوٹے اور چٹائیاں ۔ ان حضرات کا کوئی