ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
نسبت شبہ کا ہونا ہی مشکل ہے اور اگر ہو بھی تو محبت والا تو اس کو خود بخود دفع کر دیتا ہے اور اگر خود دفع نہ کر سکے تو کسی دوسرے سے حل کر لیا جائے یہ بڑی بے ادبی کی بات ہے کہ جس کے متعلق شبہ ہو اس ہی سوال کیا جائے ۔ اس خط میں مجھ پر ہی شبہ اور مجھ سے ہی سوال ہوا ۔ سیدنا یوسف علیہ السلام تو فرمایئں وما ابوي نفسي اور میں کہوں ابري نفسي ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ خدا معلوم لوگوں سے فہم کہاں رخصت ہو گیا ۔ اس زمانہ میں تو فہم کا تو قحط ہی نظر آتا ہے ۔ (391) چندہ معارفہ مایہ فساد ہے ایک مولوی صاحب نے ایک مدرسہ دینی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت والا سے عرض کیا کہ آج کل یہ حالت ہے کہ نہ تو خود کوئی دینی خدمت کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں بے اصل اور بے سروپا اعتراضات کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ پھر مدرسہ کے حالات وواقعات اورامانت ودیانت کے ساتھ اس کی خدمات کو اپنا انجام دینا اور اس پر لوگوں کے اعتراضات کرنا خلاصہ کے طور پر بیان کئے ٹھیک ہیں ۔ یہی حالت ہے آج کل مسلمانوں کی اس ہی لئے کسی کام میں کھڑے ہونے کو جی نہیں چاہتا ۔ اور مدرسہ کی کیا تخصیص ہے ہر اس کام کی جس کا تعلق عام مسلمانوں سے ہے یہی گت بن رہی ہے ۔ اور مدارس پر جو خصوصیت سے اعتراضات ہوتے ہیں اس کا بڑا سبب چندہ متعارفہ ہے یہی مایہ فساد ہے ۔ چنانچہ یہاں پر جو مدرسہ ہے بلکہ مدرسی کہنا چاہیے جب تک اس میں تحریک چندہ ترغیب چندہ کا معمول رہا یہی بلا نازل رہی ۔ میں نے اس کو بالکل ہی حذف کر دیا ۔ اب نہ تحریک ہے نہ ترغیب ہے جب سے بحمد اللہ امن ہے اب رہا یہ خیال کہ پھر چلے گا کیسے اس کے متعلق سنئے ۔ اپنا مذہب اور مشرب تو یہ ہے کہ جب تک چل رہا ہے چل رہا ہے جس روز نہ چلے گا بند کر دیں گے مگر مانگیں گے نہیں کیونکہ کوئی ہمارا ذاتی کام نہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی ہے کہ ما يفتح الله للناس من رحمة فلا ممسك لها وما يمسك فلا مرسل له من بعده وهو العزيز الحكيم اس کے بعد ان مولوی صاحب نے