ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
(309) ہدیہ کے اصول وضوابط ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل مدرسہ والے چندہ لینے میں اور مشائخ علماء ہدیہ لینے میں بہت بیباک ہیں نہ دوسرے کی تکلیف کا خیال رکھتے ہیں اور نہ اپنی اور دین کی ذلت کا ۔ بالکل دہ دردہ معاملہ ہو رہا ہے ۔ میں بحمد اللہ ان باتوں کا خیال رکھتا ہوں ۔ ہدیہ میں لیتا ہوں مگر ان دو باتوں کا خیال رکھتا ہوں کہ ایک تو دینے والے کو تکلیف نہ ہو ۔ دوسرے اپنی اور دین کی ذلت نہ ہو ۔ اس کا میں نے ایک نظام مقرر کر دیا ہے کہ ایک روز کی آمدنی سے کوئی زائد نہ دے ۔ اب اس پر ایک شبہ ہوا کہ کوئی شخص ہر روز دینے لگے تو اس میں ایک قید ہے کہ درمیان میں کم از کم ایک مہینہ کا فصل ہو ۔ یہ تو دوسرے کو تکلیف سے بچانے کا قاعدہ ہے اور ذلت سے بچنے کا قاعدہ یہ ہے کہ بدون پوری جان پہچان اور بے تکلفی کے ہدیہ قبول نہیں کرتا اس میں دین کی اور اپنی دونوں کی حفاظت ہے ۔ ایک صاحب یہاں پر آئے وہ کچھ ہدیہ دینے لگے ۔ میں نے کہا کہ ہدیہ کے متعلق میرا تو یہ قاعدہ ہے میں بلا خاص شناسائی کے لیتا نہیں ۔ کہنے لگے کہ یہ تو لینا ہی پڑے گا ۔ میں نے کہا کہ اس کے معنے تو یہ ہیں کہ میں آپ کی وجہ سے اپنا قاعدہ توڑ دوں ۔ کہا کہ مجھ کو مستثنی ہی کر دیجئے ۔ میں نے کہا کہ اگر ہر شخص یہی درخواست کرے اور میں قبول کر لیا کروں تو پھر کوئی قاعدہ ہی نہ رہے گا تب خاموش ہوئے ۔ ایک اور صاحب آئے ہدیہ پر اصرار کیا ۔ میں نے قاعدہ بیان کردیا ۔ قاعدہ سن کر بھی اصرار میں نے کہا کہ دیکھو اب غصہ آنا شروع ہو گیا ہے اگر اب کی مرتبہ کہوگے تو دوسری طرح سمجھاؤں گا پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ میں نے کہا کہ دور مو مردود نکل یہاں سے ایک چھوٹی سے پٹلیا تھی بغل میں دبا کر بھاگتے نظر آئے ۔ مسجد میں جا کر بیٹھ گئے ۔ مجھ سے تو کچھ نہیں کہا مگر اور ایک صاحب سے کہا انہوں نے مجھ سے روایت کی ۔ یہ کہتے تھے کہ دین تو یہیں ہے اس لئے کہ یہاں دنیا کی قدر نہیں ۔ دین وہیں ہو سکتا ہے جہاں دنیا کی قدر نہ ہو اور برا نہیں مانا میرے کہنے کا حالانکہ میرے الفاظ بہت ہی سخت تھے اور پہلے زیادہ ارادہ ٹھہرنے کا نہ تھا مگر پھر کئی روز ٹھہرے اور میری ہر بات پر خوش ہوتے تھے ہنستے تھے بعض ایسی سلیم طبیعتیں بھی ہوتی ہیں بیچارے پنجاب کی طرف کے رہنے والے تھے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جب وہ وطن سے چلے