ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
حضرات صحابہ کرام بھلا ان قصوں جھگڑوں میں تو کیا اپنا وقت خراب کرتے جن چیزوں کو آج کل کے خواص تک علوم مقصود سمجھتے ہیں مسئلہ تقدیر ہے یا ذات صفات پر بحث ہے ان چیزوں کے متعلق ان حضرات کا حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ نہ دریافت کرنا اس امر کو صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب باتیں بھی زائد از ضرورت ہیں ۔ کام کرنے والے کے نزدیک ان میں پڑنا بھی اپنا وقت ضائع کرنا ہے ۔ ضروری کاموں میں لگو کیوں اپنے وقت کی بے قدری کرتے ہو وہ وقت قریب ہے کہ اس پر پچھتاؤ گے اس لئے اس وقت کے آنے سے پہلے اپنے اعمال کا محاسبہ کر لو اور خدا کو راضی کرنے کی فکر کرو حق تعالی سب کو فہم سلیم عطا فرمائیں ۔ 6 رجب المرجب 1351 ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم یکشنبہ (77) حکایت حضرت حجۃ الاسلام و پنڈت دیا نند سرستی فرمایا کہ رنگون سے ایک صاحب کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ دیوبند سے فلاں مولوی صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں جن سے لوگوں کو بے حد نفع ہوا اور نفع ہونے کی وجہ یہ لکھی ہے کہ انہوں نے کسی سے کچھ لیا نہیں ۔ لوگ خلوص اور محبت سے خدمت کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن قبول نہیں کیا اس سے لوگوں پر زیادہ اثر ہوا ۔ ماشاء اللہ اگر سب علماء ایسے ہی ہو جائیں تو لوگوں کے قلوب میں دین اور اہل دین کی کس قدر عظمت اور محبت پیدا ہو جائے ۔ معلوم ہوا جو شخص خدمت کرنا چاہتا صاف جواب دے دیتے کہ مجھ کو اللہ نے بقدر ضرورت دیا ہے اگر تم لوگوں کا جی چاہے تو مدرسہ دیوبند میں بھیج دو ۔ لکھا ہے کہ قریب چھ ساڑھے چھ ہزار روپیہ مدرسہ کے لئے ہو گیا ۔ فرمایا کہ اگر استغناء خلوص سے ہو اس کا قلوب پر ضرور اثر ہوتا ہے جی چاہتا ہے کہ تمام اہل علم اسی شان کے ہوں ۔ مگر یہ بات اس وقت اہل علم میں ہے نہیں ۔ ہے افسوس کی بات روڑ کی میں جس وقت دیا نند سرستی نے اعلان کیا کہ میں تو مولوی کاسم (حضرت مولانا محمد قاسم صاحب ) ہی سے مناظرہ کروں گا اور یہ اعلان اس کا خیال سے تھا کہ اس کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ مولانا اس وقت ضیق النفس کے عارضہ میں مبتلا ہیں ۔ جس سے بات کرنا مشکل ہے وہ تشریف نہیں لاسکتے ۔ لوگوں نے حضرت مولانا کو اطلاع دی ۔ حضرت اسی حالت میں چل کھڑے ہوئے خدام نے کہا بھی کہ حضرت کی طبیعت اچھی نہیں ایسی حالت میں سفر کرنا