ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
طاق میں سے ایک لنگوٹی اتار کر دکھائی کہ مال اڑانے کے یہاں تک کے نتیجہ کےلئے تو میں پہلے سے تیار ہوں اگر افلاس کا کوئی درجہ اس سے بڑھ کر ہو تو وہ فرمائیے تاکہ اس میں میں غور کر سکوں ۔ باقی اس کےلئے تو تیار ہوں ۔ ایک شخص کانپور کی جامع مسجد میں سقاوہ میں پانی بھرا کرتے تھے ۔ لوگ ان کو نواب صاحب کہتے تھے تحقیق پر معلوم ہوا کہ فی الحقیقت نواب تھے عیاشی اور فضول خرچی کی بدولت تباہ اور برباد ہو گئے یہ سب بے فکری اور غفلت کے نتائج ہیں جن کی بدولت مسلمان تباہ ہوئے اور ہو رہے ہیں ۔ دین اور دنیا دونوں اس کی بدولت ہاتھ سے جاتے رہے اور پھر بھی آنکھیں نہیں کھلتیں رات دن یہ تباہی اور بربادی دیکھ رہے ہیں مگر پتھر پر جونک نہیں لگتی دیکھئے آئندہ اور کیا حشر ہونا ہے ۔ سن سن کر بہت ہی قلب میں قلق اور رنج ہوتاہے ۔ اور اگر کچھ فکر بھی کی تو آمدنی کی فکر کرتے ہیں مگر خرچ کا کوئی انتظام نہیں کرتے ۔ میرٹھ میں ایک رئیس تھے انہوں نے ایک بڑے کام کی بات کہی مجھ کو تو بڑی پسند آئی یہ کہتے تھے کہ لوگ آمدنی بڑھانے کی تو فکر کرتے ہیں جو غیر اختیاری ہے اور خرچ گھٹانے کا انتظام نہیں کرتے جو اختیاری ہے خوب ہی بات ہے ۔ غرض اس زمانہ میں خصوصا سخت ضرورت ہے کہ مسلمان فکر سے کام لیں اور خرچ سوچ سمجھ کر کیا کریں جس کا نظام میں نے یہ تجویز کیا ہے کہ خرچ کرنے سے قبل کم از کم تین مرتبہ مراقبہ کر لیا کریں کہ جو ہم خرچ کرنا چاہتے ہیں کیا یہ خرچ ایسا ضروری ہے کہ بدون اس کے کوئی ضرر ہو گا جہاں یہ تحقیق ہو جاوے اس کی ضروری سمجھیں پھر یہ سوچیں کہ کیا اتنا ہی خرچ ہونا چاہئے یا اس سے کم میں بھی کام چل سکتا ہے ایسا کرنے سے چند روز تو تعب ہو گا کیونکہ طبیعتیں اس کی عادی اور خوگر نہیں اس کے بعد سہولت سے مداومت کے ساتھ اس پر عمل ہونے لگے گا ۔ خلاصہ یہ کہ فکر اور انتظام بڑی ضروری چیزیں ہیں اور بے فکری اور بد انتظامی نہایت مضر ۔ (58) امراء کو نوکروں سے ذلت ذلت آمیز سلوک مذموم ہے ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ واقعہ ہے کہ امراء کے یہاں نوکروں کی کوئی عزت نہیں ہوتی ۔ ان کے ساتھ نہایت ذلت کا برتاؤ اور حدود سے تجاوز کیا جاتا ہے مگر سب امراء بھی ایسے نہیں ہوتے ۔ چنانچہ ایک امیر کی حکایت بیان کرتا ہوں ۔ بھوپال کی ایک