ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
طبیعت پر بوجھ پڑے اور اس بے فکری کے مرض سے ان کو نجات ہو اب آپ ہی دیکھ لیجئے کہ ایک بات بھی تو زبان سے کام کی نہ نکلی ورنہ جیسے میں نے یہ تجویز عدم تعلق کی بیان کی تھی اس کا جواب یہ تھا کہ میں قطع تعلق نہیں کر سکتا آپ چاہے کچھ کریں ۔ مگر یہ محبت سے ہوتا ہے جس سے محبت ہوتی ہے ایسی بات سن کر تڑپ جاتا ہے ۔ ان کو اس وقت تڑپ کر یہ بات کہنی چاہیے تھی کہ میں یہیں مٹوں گا یہیں مروں گا یہیں فناء ہوں گا اگر عقل رہبری کرتی یہی کہتے مگر نہ محبت نہ عقل نہ فہم ۔ باوجود ان سب باتوں کے میری رعایت ملاحظہ ہو کہ اب بھی مجھ کو ان کی اصلاح کی فکر ہے اور جب دیکھوں گا کہ کوئی صورت اصلاح کی ہے ہی نہیں تب بمجبوری قطع تعلق کردوں گا ۔ اس لئے کہ ہر شے کی غایت ہوتی ہے ۔ تعلق پیدا کرنے کی یا رکھنے کی غایت اصلاح ہے جب اصلاح نہ ہوئی اور نہ آئندہ ہونے کی امید ہو تو تعلق رکھنے سے غرض عدد بڑھانا تھوڑا ہی ہے یا فوج تھوڑا ہی جمع کرنا ہے ۔ اور ان کے لئے یہ ہے کہ یہاں سے کام نہیں ہوا کسی دوسری جگہ سے سہی مقصود کسی خاص شخص سے تعلق کا رکھنا تھوڑا ہی ہے مقصود تو کام کرنا ہے ۔ اور ایسے لوگ وہاں کہتے ہیں جہاں محض وظائف کی تعلیم ہے ۔ یہاں پر وظائف کی تو تعلیم ہے نہیں صرف دو چیزوں کی تعلیم ہے ۔ اگر کسی کو پسند ہو یہاں پر آؤ ورنہ کہیں اور جاؤ وہ یہ ہے کہ ایک تو معاصی سے بچو اور دوسرے یہ کہ کسی کو اذیت نہ پہنچاؤ وہ ایذاء چاہے کسی قسم کی ہو ۔ مالی ہو جاہی ہو ۔ جانی ہو ۔ یہی میرے یہاں بزرگی ہے ۔ اور یہی درویشی ہے دوسری یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ خدمت لو مگر خادم بن کر اور جو شخص مخدوم بن کر خدمت لے گا وہ محروم جائے گا میں چاہتا ہوں خدمت کرنا مگر قاعدہ اور اصول سے میں بے قاعدہ اور بے اصول طریقہ سے خدمت کرنے سے معذور ہوں ۔ اور میں کیا کروں یہ امور میرے فطری ہیں جن کو بدل نہیں سکتا ۔ اور میں بدلنے کی کوشش بھی کیوں کروں میری غرض کون سی ہے ۔ (351) البادی اظلم ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اگر اپنے حقوق لینے میں یا وصول کرنے میں دوسرے کو تکلیف ہو یا اذیت پہنچے ۔ فرمایا کہ اس کا ذمہ دار وہ ہے ۔ ابتداء اس کی طرف سے