ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
بھی روؤ جب بتلاؤں گا گھر والے بھی رونے لگے ۔ اہل محلہ نے جو شور غل سنا آ کر وجہ دریافت کی میاں جی نے کہا کہ تم بھی روؤ اہل محلہ بھی رونے لگے ۔ پھر میاں جی سے وجہ رونے کی دریافت کی گئی تب میاں جی نے کہا کہ آج میاں کا خط آیا ہے اس میں نوکر ہو جانے کو اور معقول تنخواہ ہو جانے کو لکھا ہے ۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو خوش ہونے کی بات ہے نہ کہ رونے اور رنج کرنے کی ۔ میاں جی نے کہا کہ تم سمجھے ہی نہیں دیکھو جب اتنی تنخواہ ہو گئی تو اب وہ بچوں کو انگریزی پڑھوائیں گے جس کےلئے ماسٹر کی ضرورت ہے تو میری نوکری تو گئی میں تو یوں رویا اور بجائے پرانی بی بی کے کوئی جوان عورت بالخصوص میم کو گھر میں رکھیں گے ۔ بی بی کے رونے کی یہ بات ہے پھر جب میاں یہاں آ کر رہیں گے تو گھوڑے اور موٹر ساتھ ہونگے جن کے کھڑے ہونے کےلئے مکانات کی ضرورت ہو گی وہ اہل محلہ سے خرید کر بنوائے جائیں گے ان کے رونے کی یہ بات ہے غرض سب کے رونے کی یہ وجوہ ہیں ۔ یہ حکایت ترقی خاص و تنزل عام کا بہت اچھا نقشہ ہے ۔ (41) اصلاح اور تربیت کا کام بڑا نازک ہے ایک صاحب کی غلطی پر (جو عنقریب مذکور ہے) مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ میں پہلے ہی بدنام ہوں ۔ اگر تم سے قیل و قال یا جرح قدح کروں گا اس سے اور زیادہ بدنامی میں شہرت ہو گئی اس لئے جانے ہی دو جب تم سمجھتے ہی نہیں اور اپنی اصلاح ہی نہیں چاہتے تو میں کیا اپنا سر دے ماروں مجھ کو تو سب کہنے کو تیار ہیں مگر اس کو کوئی نہیں دیکھتا کہ دوسرے لوگ میرے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں ۔ اب آپ ہی بتلائیے کہ میں اس میں کیا تاویل کروں آپ سے پوچھا یہ تھا کہ دوپہر جو تم سے غلطی ہوئی تھی اور اس پر میں نے تم کو سمجھایا تھا تم اپنی غلطی کی حقیقت سمجھ بھی گئے یا نہیں اگر نہ سمجھے ہوں تو پھر سمجھا دونگا اس پر جواب ملتا ہے کہ معاف فرما دیجئے میں معافی چاہتا ہوں ۔ اب اس کا مطلب سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ مجھ کو سمجھانے سے معاف رکھو یعنی سمجھاؤ نہیں کیا یہ مہمل جواب نہیں ۔ آخر کہاں تک تغیر نہ ہو کہاں تک صبر کروں کوئی حد بھی ہے ایسے ایسے بد فہم آتے ہیں اگر میں ضابطہ سے کام لیتا تو عقل ٹھکانے لگ جاتی اور دماغ درست ہو جاتا مگر نرمی کی گئی سو یہ نتیجہ ہوا نااہلوں کے ساتھ