ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
اس میں رسوخ تو ہوتا نہیں اس لئے وقت اور موقع پر قلب میں لغزش ہو جاتی ہے کوئی تھامنے والی چیز تو قلب میں ہوتی نہیں اس لئے سب زہد و تقوی ذکر و شغل علم و فضل دھرا رہ جاتا ہے بالکل وہ مثال ہو جاتی ہے کہ جیسے ایک بادشاہ نے ایک بلی کو تعلیم دی تھی کہ اس کے سر پر شب کو چراغ رکھ دیتا وہ لئے کھڑی رہتی جب ہر طرح پر اپنی تعلیم پر اطمینان ہو گیا تو ایک روز وزیر سے اس کی تعریف کی کہ ہماری بلی بڑی تعلیم یافتہ ہے بڑی مہذب ہے وزیر نے کہا کہ حضور امتحان بھی کر لیا ہے بادشاہ نے کہا کہ امتحان کیسا وزیر نے ایک چوہا پکڑوایا اور پوشیدہ کر لیا ۔ بلی کے سر پر چراغ رکھا گیا اس وقت اس کے سامنے چوہا چھوڑ دیا ۔ بلی کا چوہے کو دیکھنا تھا کہ ایک دم کے دم میں بلی کہیں چراغ کہیں چوہا کہیں سب گڑ بڑ ہو گیا وہ سال دو سال کی تعلیم اور تہذیب آن واحد میں ختم ہو گئی ۔ یہی حالت غیر تربیت یافتہ کی ہوتی اس کی کسی بات پر اعتماد و اعتبار نہیں ہوتا ۔ (112) بے فکری کے نتائج ایک صاحب کی غلطی پر مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تم سے ایسا کون سا باریک سوال کیا تھا کہ جس کا تم جواب نہ دے سکے ۔ یہی تو پوچھا تھا کہ تم نے جو مرید ہونے کی غرض سے سفر کیا اور تین دن ٹھہرنے کو بیان کیا ۔ اگر میں نے مرید نہ کیا تو کیا پھر بھی تین دن قیام رہے گا یا کیا صورت ہو گی ۔ جس پر تم پہلے تو خاموش رہے اب اگر پچتا کر بولے بھی تو اس طرح کہ کوئی سن نہ لے تم لوگ آ کر کیوں دق کرتے ہو ایسے ہی نواب ہو تو گھر پر رہے ہوتے آئے ہی کیوں تھے کیا کوئی بلانے گیا تھا کہاں تک کوئی تمہاری اصلاح کرے ۔ اصلاح بھی اصلاح ہی کرنے کی باتوں کی کی جاتی ہے یہ تو موٹی موٹی باتیں اور فطری باتیں ہیں مگر عقل اور فہم کا اس قدر قحط ہو گیا ہے کہ جس کو دیکھواس مرض میں مبتلا ہےاور عقل اور فہم کا بھی زیادہ قصور نہیں زیادہ تر بے فکری کا مرض ہے ۔ یہ تجربہ سے معلوم ہوا کہ اکثر غلطیاں بد عقلی یا بد فہمی کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ زیادہ تر بے فکری سے ہوتی ہیں اس لئے میں فکر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اس بے فکری کے سبب سیدھی سادھی بات کو ایچ پیچ میں ڈال دیتے ہیں خود پریشان ہوتے ہیں دوسروں کو پریشان کرتے ہیں ۔ میرٹھ سے ایک صاحب