ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
مقدمہ تھا میرے ساتھ ایک ہندو بھی تھا اس کا مقدمہ سے تعلق تھا اس ہندو نے دیوبند پہنچ کر مجھ سے پوچھا کہ کہاں ٹھہرو گے میں نے کہا کہ میں حضرت مولانا کے یہاں ٹھہروں گا اس نے کہا کہ میں کھانا تو بازار سے کھا لوں گا باقی قیام کےلئے ایک تھوڑی سی جگہ اور ایک چھوٹی سی چار پائی مولانا کے یہاں مجھ کو بھی مل جائے تو بڑی آسانی ہو اور عدالت میں جمع ہو کر چلنے میں کوئی تکلف نہ ہو ۔ مولوی صاحب کہتے تھے کہ میں نے حضرت مولانا ہی کی بیٹھک میں انتظام کر دیا ایک روز میں اور وہ ہندو اپنی اپنی چار پائیوں پر لیٹے ہوئے تھے دو پہر کا وقت تھا حضرت زنانہ مکان سے دبے دبے پیروں بیٹھک میں تشریف لائے اور اس ہندو کی چار پائی پر بیٹھ کر اس کے پیر دبانا شروع کر دیئے وہ اس قدر بے ہوش سو رہا تھا کہ خراٹوں کی آواز آرہی تھی میں چونکہ جاگ رہا تھا اس لئے برداشت نہ کر سکا فورا اٹھ کر پہنچا اور عرض کیا کہ میں دبا دوں گا فرمایا کہ میرا مہمان ہے مجھ پر حق ہے ۔ میں نے پھر اصرار کیا فرمایا جاؤ تم دخل دینے والے کون ہوتے ہو آرام کرو زیادہ بات کرنے سے بے چارے کی آنکھ کھل جائے گی اور تکلیف ہو گی کیا ٹھکانا ہے اس بے نفسی کا مجھ کو تو یہ حکایت سن کر حیرت ہو گئی کہ اے اللہ اپنے کو بالکل مٹا ہی دیا تھا یہ حضرات عادل ہوتے ہیں اس وقت مہمان ہونے کے حقوق ادا کئے اور اگر دوسری حیثیت کے ظہور کا وقت ہوتا یعنی کفر کی حیثیت کا تو پھر دیکھو کہ اسی کی گردن پر تلوار ہوتی بس اس طرح سے جمع بین الاضداد ہو جاتا ہے اسی سلسلہ میں فرمایا کہ حضرت مولانا کی تو کچھ عجیب ہی شان تھی اپنے خادموں سے بے حد محبت فرماتے تھے اور یہ سب برکت اپنے بزرگوں کی محبت اور دعاؤں کی ہے ورنہ مجھ کو اپنی حالت اچھی طرح معلوم ہے کہ نہ علم ہے نہ عمل نہ فضل نہ کمال بس جو کچھ ہے اپنے بزرگوں ہی کی نظر عنایت کے ثمرات ہیں ۔ (2)اساتذہ کے اخلاق کا بھی اندازہ لگانا چاہیئے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک مولوی صاحب کی ایک بات مجھ کو بہت ہی پسند آئی وہ مولوی صاحب ایک مدرس کو جس کے اخلاق کا اثر بھی طلبہ پر پڑے ند وہ لے جانا چاہتے تھے ان کی تواضع و انکسار ان کو پسند آیا یا شاید کسی نے اس کی روایت کی ۔ ایک دوسرے شخص نے ایک دوسرے فاضل کا نام لیا جو علم و فضل میں ان پہلے صاحب سے بڑھے ہوئے تھے جن کو وہ