ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
سوال خواہ کیسا ہی خلاف اصول اور نا معقول ہو سائل کی رعایت سے لکھ دیتے ہیں مگر اس طرز میں بڑے مفاسد اور بڑی خرابیاں ہیں اس سے بجائے علم کے سائل کا جہل بڑھتا ہے ۔ میں بحمداللہ ان باتوں کا بے حد خیال رکھتا ہوں کہ ہر چیز میں حدود کی رعایت ہو اگر سب اہل علم یہی طرز اختیار کر لیں تو بہت سے عبث اور فضول سوالات کا دفتر بند ہو جائے ۔ (174) احکام شرعیہ کی بے قدری کا سبب ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض لوگ جو محض باتیں ہی بناتے ہیں اور فضول سوالات کرتے ہیں اور احکام شرعیہ کی ان کے قلوب میں عظمت اور وقعت نہیں یہ سب اس وجہ سے ہے کہ ہم کو کچھ کرنا نہیں پڑا دین مفت مل گیا اس لئے اس کی قدر نہیں ورنہ اگر یہی احکام پریشانی کے بعد ملتے تو پتہ چل جاتا کہ یہ کس درجہ کی چیزیں ہیں ۔ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ اسی کو فرماتے ہیں ۔ اے گران جان خوار دیدستی مرا زانکہ بس ارزان خریدستی مرا ہرکہ او ارزان خرد ارزان دہد گوہرے طفلے بقرص نان دہد بچہ جواہرات کی کیا قدر جانے ایک بسکٹ کے ٹکڑے کے بدلے اس سے جواہرات اور بیش بہا موتی لے سکتے ہیں ۔ سو بے قدری کا سبب تو مفت ہاتھ آ جاتا ہے پھر اس بے قدری سے شبہات و اعتراضات پیدا ہوتے ہیں ورنہ عظمت کے ہوتے ہوئے اعتراض ہو ہی نہیں سکتا ۔ دیکھئے گورنمنٹ کے احکام کے سامنے کیوں گردنیں جھکا دیتے ہو ۔ ذرا وکلاء کے پاس جا کر تعزیرات ہند کی دفعات پر اعتراضات کرو دیکھو وہ کیا جواب دیتے ہیں صرف یہ جواب کافی ہو جاتا ہے کہ صاحب قانون یہی ہے سو یہی جواب یہاں کیوں کافی نہیں ہوتا ہے ۔ سو وہاں کیوں نہیں اعتراضات سوجھتے ۔ احکام شرعیہ ہی کو کیوں تختہ مشق بنایا جائے ایک تحصیلدار صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ جہاں طاعون ہو وہاں نہ جانا تو عقل میں آتا ہے یہ حکم تو عقل کے موافق ہے مگر جہاں ہو وہاں سے نہ جانا عقل میں نہیں آتا یہ حکم عقل کے موافق نہیں معلوم ہوتا بلکہ نہ جانے میں تو خطرہ میں پڑنا ہے میں نے کہا کہ پہلے میرے ایک سوال کا جواب دیجئے تب میں آپ کا جواب دوں گا وہ یہ کہ سپاہی کا میدان کا رزار سے پشت دیکر بھاگنا کیوں جرم ہے حالانکہ وہاں بھی ہلاکت تقریبا یقینی ہے کبھی اس پر بھی آپ