ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
کہ اختلاف اپنی حد پر ہے اور دوسرے کے کمالات بھی پیش نظر ہیں اب تو ذرا ذرا بات میں اپنے مخالف کو کھلم کھلا برا بھلا کہتے ہیں نہ کوئی علمی تحقیق ہے نہ اصول پر مناظرہ ہے ۔ گالیوں سے اور کفر کے فتووں سے رسالے بھرے ہوتے ہیں کیا اس کو دین کی خدمت کہیں گے ۔ (195) نہایت پر فتن دور ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہ زمانہ نہایت ہی پر فتن ہے جو غریب اپنے مسلک اور مشرب اور اپنے بزرگوں کے طرز پر رہے اور سلف کا مذہب اختیار کرے سب اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں ۔ کسی طرح چین نہیں لینے دیتے ۔ چنانچہ اسی جرم میں میرے حال پر بھی بعض کی عنایت ہے مگر الحمد للہ میں التفات بھی نہیں کرتا ۔ بولنا مجھ کو بھی آتا ہے ۔ زبان اللہ نے مجھ کو بھی دی ہے اللہ نے قلم بھی میرے ہاتھ میں دیا ہے لیکن میں تو اس طرز ہی کو پسند نہیں کرتا ہوں جو طرز سلف سے بزرگوں کا چلا آرہا ہے اور اپنے اکابر کا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہی پسند ہے اس پر رہنے کو پسند کرتا ہوں نیز میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میں اہل علم سے بہت شرماتا ہوں اور ان کے مقابلہ میں جی چاہتا ہے کہ اپنا ہی نقص نظر میں رہے ۔ میں چھوٹے سے چھوٹے طالب علم کی اپنے قلب میں عظمت و احترام پاتا ہوں میں کبھی اہل علم کو ایسا خطاب کرنا پسند نہیں کرتا جس سے ذرا برابر بھی ان کی اہانت کا شبہ ہو ۔ تحریک کے زمانہ میں بعض اہل علم تک نے مجھ پر رد و قدح کیا مضامین شائع کئے مگر میں نے کوئی جواب نہیں دیا محض اس خیال سے کہ خدانخواستہ تقریر و تحریر میں میری نیت کسی مناظرہ مکالمہ یا رد و قدح کی نہ تھی بلکہ اظہار حق مقصود تھا اس پر لوگوں کو نا گواری ہوئی اور اعتراضات کئے مگر میں نے کسی کو کچھ نہیں کہا ۔ صبر کیا اور ان کے علم کی وجہ سے اپنے قلب میں ان کی ویسی ہی عظمت و احترام پاتا تھا ۔ اور اگر اپنے اکابر کا طرز پیش نظر نہ ہوتا ۔ نیز قلب میں اہل علم کی عظمت اور احترام نہ ہوتا اور ان کی طرح میں بھی زبان کھولتا اور بولتا اور قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھتا تو بہت سے ٹھیک ہو جاتے مگر یہ زور شور اسی وجہ سے تھا کہ سمجھتے تھے کہ اس کا مسلک اس کا طرز صبر و سکوت کا ہے ہم بھی اپنی بھڑ اس نکال لیں ۔ (196) بیہودہ بات پر مواخذہ کا حکیمانہ معمول ایک شخص کی بیہودہ بات پر مواخذہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ لوگ مجھ کو مشورہ دیتے ہیں کہ