ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
ہوا ۔ حضرت والا نے پرچہ کو ملاحظہ فرما کر فرمایا کہ جو پرچہ میں لکھا ہے میں تو ان کاموں کو جانتا نہیں اور آپ نے پہلے ہی صاف بات کیوں نہ کہہ دی کہ اس کام کو آیا ہوں ۔ زیارت کو بھی کیوں بد نام کیا ۔ کیا ایسی باتوں میں تم لوگوں کو کچھ مزا آتا ہے ۔ جو کام آپ نے پرچہ میں لکھا ہے یہ کام عاملوں کا ہے ۔ ہاں میں دعاء کروں گا دعاء سے انکار نہیں میرے بہت سے دوست جن سے خصوصیات کے تعلقات ہیں ایسی پریشانیوں میں مبتلا ہیں جیسی پریشانی آپ نے پرچہ میں لکھی ہے ان کا مجھ پر زیادہ حق ہے اگر ایسے عملیات مجھ کو معلوم ہوتے تو وہ اس کے زیادہ مستحق تھے ۔ اور میاں ان خزینوں اور دفینوں کی بدولت بہت لوگ تباہ و برباد ہوگئے تم کہاں اس چکر میں پڑے ہو کس نے بہکا دیا ۔ کیوں وقت اور روپیہ برباد کرتے پھرتے ہو دفینہ تو کیا ملے گا جو کچھ پہلے سے پاس ہے وہ بھی دے بیٹھو گے ۔ یہ سن کر وہ صاحب السلام علیکم کر کے چل دئیے اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ یہ زیارت کو آئے تھے ۔ کہتے تھے کہ زیارت کو آیا ہوں ۔ جب دفینہ کا پتہ نہ چلا خود بھی غائب ہو گئے ۔ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں خود اپنے دفن کا وقت قریب ہے مگر دفینہ کے نکالنے کی فکر میں پھر رہے ہیں بس حب دنیا قلب میں بھری ہے ۔ توکل قناعت جو ایک ایمان والے کی شان ہے اس کا لوگوں میں نام ونشان نہیں رہا جس کو دیکھو دنیا کی جستجو اور تلاش میں ۔ ہاں بقدر ضرورت فکر معاش کی ممانعت نہیں مگر یہ صورت کہ دفینے ڈھونڈتے پھریں بالکل توکل اور قناعت کے منافی اہے ۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ نرمی کا برتاؤ کرو ۔ نرمی تو یہ تھی کہ ان کو دفینہ نکالنے کے وظائف بتلا دیتا تو یہ خوش ہو جاتے ۔ نہیں بتلایا خفا ہو کر چلے گئے شکایت کرتے پھریں گے ۔ بھلا کس طرح تمام مخلوق کو راضی رکھ سکتا ہوں اور ایسے بد فہموں کا تو ناراض ہو کر جانا ہی مناسب ہے اور ان سے جا کر کہے گا اور ایسے بد فہم یہ سن کر نہ آئیں گے نجات ہوگی ۔ (216) انتشار اور انتظار کی تکلیف میں فرق ایک صاحب نے حاضر ہوکر کھڑے ہی کھڑے تعویذ کی درخواست کی حضرت والا نے فرمایا کہ میاں بیٹھ کر کہو جو کہنا ہو ۔ کھڑے ہو کر کہنے سے دوسرے کے قلب پر بار ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اپنے سب کام چھوڑ کر پہلے ہمارا کام کرو ۔ کیا تم نے دیکھا نہ تھا کہ میں